’میں لاہور سے اٹلی کے شہر بلونیا جا رہا تھا کہ استنبول سے کنیکٹنگ فلائٹ میں سوار ہونے کے بعد میری توجہ مسافروں کی جانب گئی۔ اس پرواز میں زیادہ تر سوار افراد نوجوان جنوبی ایشیائی اور افریقی ہیئت کے تھے اور حیران کن طور پر ان میں یورپی شامل نہیں تھے۔‘
برطانوی نژاد پاکستانی ناول نگار محسن حامد نے یہ گفتگو ڈاکٹر علی خان کے گوگل پوڈ کاسٹ ’لیٹس ٹاک ڈویلپمنٹ‘ کے دوران کی، جہاں انہوں نے ان وجوہات پر روشنی ڈالی، جو ان کے خیال میں پاکستانیوں کی کثیر تعداد میں بیرون ملک منتقلی کا باعث بن رہی ہیں۔
ڈاکٹر علی خان نے محسن حامد سے سوال کیا کہ پاکستانیوں کی بیرون ملک منتقلی میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟
جس پر محسن حامد نے کہا کہ یورپی ممالک میں نوجوانوں کی تعداد میں کمی آ رہی ہے۔ اگر اٹلی کی بات کی جائے تو وہاں شرح پیدائش میں کمی واقع ہوئی ہے اس لیے یہ ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ بیرون ممالک سے افرادی قوت کو منگوایا جائے۔
انہوں نے اٹلی جانے کے لیے اپنی پرواز کے مشاہدات شیئر کرتے ہوئے مزید بتایا کہ ’اٹلی جانے والی پرواز میں چینی شہری سوار نہیں تھے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں شرح پیدائش زیادہ ہے صرف وہیں سے شہری نقل مکانی کر رہے ہیں کیونکہ پاکستان اور افریقی ممالک سے زیادہ نقل مکانی کی جا رہی ہے۔
’یہ اس امر کی نشان دہی کرتا ہے کہ ہمارے جیسے ممالک میں نوجوانوں کے لیے نوکریوں کے مواقع پیدا نہیں کیے جا رہے۔ چین کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے تو ساتھ ہی وہاں مینوفیکچرنگ کی فیلڈ میں ملازمتوں کے متعدد مواقع پیدا کیے گئے ہیں۔ پاکستان اور دیگر ممالک اس فیلڈ میں مکمل طور پر فیل ہوئے ہیں۔‘
ناول ’دی رلکٹنٹ فنڈامینٹلسٹ‘ (The Reluctant Fundamentalist) کے لکھاری نے پوڈ کاسٹ میں اپنے اٹلی میں قیام کے مشاہدات بھی شیئر کیے، جس پر میزبان نے ان سے سوال کیا کہ ’تارکین وطن کس قسم کی ملازمتوں کی تلاش میں اٹلی جا رہے تھے؟‘
معروف ناول نگار کا کہنا تھا: ’زیادہ تعداد کیریئر کا آغاز کرنے والے افراد کی ہوتے ہیں۔ اٹلی کے شہر فلورنس کی ایک فیکٹری میں میرا جانا ہوا، امریکیوں اور اطالوی شہریوں کے بعد وہاں سب سے بڑی تعداد چینی شہریوں کی تھی کیونکہ کچھ عرصہ قبل وہاں چینیوں نے فیکٹریوں میں انویسٹمنٹ کی تھی اور چینی انجینیئر اور مینیجرز ان فیکٹریوں میں آئے تھے۔ سو یہاں کے انٹرنیشل سکولوں میں اطالوی چینی آبادی بہت زیادہ ہے۔
’فیکٹریوں میں انتظامی ملازمتوں میں بھی زیادہ یہی لوگ ہیں۔ پاکستانی ہر ملک میں پائے جاتے ہیں، دنیا کے ہر ملک کا حصہ بن چکے ہیں۔ زیادہ تر لوگ کیریئر کے ابتدائی دور میں کیے جانے والے کاموں کا حصہ بنتے ہیں۔‘
میزبان ڈاکٹر علی خان نے محسن حامد سے یہ دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے کہ نہ صرف متوسط طبقے بلکہ اشرافیہ میں بھی اب بیرون ملک منتقلی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے؟
اس پر ناول نگار نے بتایا کہ ’گذشتہ دو، اڑھائی سالوں میں روپے کی قدر میں شدید گراوٹ دیکھی گئی ہے، ملک اور معاشرے کے ہر حصے میں ڈیڈ لاک دیکھا گیا ہے۔ سیاسی جماعتوں، عدلیہ اور فوج کے معاملات کی وجہ سے جمہوریت بھی ڈیڈ لاک کا شکار رہی اور بطور ریاست پاکستان ہر سطح پر بند گلی میں تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ملکی سطح پر ترقی نہیں ہوئی یا شاید ملک منفی گروتھ میں چل رہا تھا، افراط زر میں شدید اضافہ دیکھا گیا۔ ان سب سے بڑھ کر غیریقینی کی سطح بہت بڑھی اور اس تاثر کو تقویت ملی کہ سسٹم کی درستگی ممکن نہیں ہے، جس کی وجہ سے اشرافیہ میں بیرون ملک منتقلی کا رجحان بڑھا۔‘
انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’بیرون ملک مقیم سرمایہ دار پاکستانیوں نے وہاں سے پیسے کما کر پاکستان میں مختلف کاروبار میں پیسہ لگایا اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کے سرمائے میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، ان لوگوں کا یہ ماننا تھا کہ اس سرمایہ کاری سے وہ بیرون ملک کئی اچھی نوکریوں سے زیادہ اچھا پیسہ پاکستان میں کما سکتے ہیں اور زیادہ بہتر انداز میں زندگی گزار سکتے ہیں۔
پاکستان کی گذشتہ چند برسوں کی معاشی صورت حال نے ان سرمایہ کاروں کا پاکستان پر یقین توڑ دیا، نتیجتاً وہ بیرون ممالک میں سرمایہ کاری کرنے اور وہاں مستقل سکونت اختیار کرنے کی جانب راغب ہوئے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ مکمل طور پر نیا نہیں ہے، ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے۔ پہلے بھی ایسا ہوتا تھا کہ پاکستانی نوجوان بیرون ممالک تعلیم حاصل کرنے جاتے تھے اور پھر واپس نہیں آتے تھے مگر اب اس میں اضافہ ہوا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’پاکستان سے بیرون ملک جانے والے کھلاڑی اکثر بین الاقوامی سطح پر ملک کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ وہاں جا کر غائب ہو جاتے ہیں اور دوسرے ممالک میں جا کر نوکریاں ڈھونڈ لیتے ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ ایسا صرف برطانیہ جیسے ممالک میں نہیں ہوتا بلکہ آذربائیجان جیسے ممالک میں بھی ہوتا ہے۔‘
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’اس لیے کہ پاکستان میں صنعتی ترقی نہیں ہوئی۔ ہم نے مینوفیکچرنگ کی فیلڈ میں نوکریاں پیدا نہیں کیں، جس کی وجہ سے نوجوانوں میں بہت مایوسی پھیلی اور وہ دوسرے ممالک منتقل ہونے پر مجبور ہوئے۔
پاکستان میں امن و عامہ کی خراب صورت حال بھی پاکستانیوں کی بیرون ملک منتقلی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے، اس کی مثال ایسے دی جا سکتی ہے کہ اگر کسی بااثر شخصیت، سیاست دان یا کسی بھی اور فیلڈ کے بااثر فرد سے آپ کے تعلقات خراب ہیں تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ ان کی زندگی پر بہت برے انداز میں اثر انداز ہو سکتے ہیں، سو اس بے بسی اور مایوسی کے جذبات نے نوجوانوں کو باہر جانے پر مجبور کیا ہے۔‘
پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے عالمی شہرت یافتہ کالم نگار نے کہا کہ ’1980 کی دہائی اور اب کے نوجوان میں بہت فرق ہے۔ موجودہ دور کی نوجوان کھیپ اپنے بزرگوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہنرمند اور دور حاضر کے تقاضوں کو سمجھنے والی ہے، تاہم حیران کن بات یہ ہے کہ ان نوجوانوں کی صلاحیتوں کے مطابق ملازمتیں نہیں ہیں، جس کی وجہ سے ان کی بیرون ملک منتقلی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔‘