بیرون ملک مقیم پاکستانی کم رقومات کیوں بھیج رہے ہیں؟

بہت سے بیرونِ ملک پاکستانی انتظار کرنے لگے ہیں کہ پاکستانی کرنسی مزید گرے گی تو پھر ڈالر یا پاؤنڈز بھیجیں گے تاکہ زیادہ روپے مل سکیں۔

اس وقت اوپن مارکیٹ اور بینک میں ڈالر کے ریٹ میں 30 روپے سے زیادہ کا فرق ہے (اے ایف پی)

انس غفار پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں۔ وہ فنانس، معیشت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور پاکستانی معیشت پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن ترسیلات زر میں کمی ہوئی ہے۔ موجودہ مالی سال کے پہلے 10 مہینوں میں ترسیلات زر میں پچھلے مالی سال کے مقابلے میں 13 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ پچھلے مالی سال کے پہلے 10 ماہ میں ترسیلات زر 26.1 ارب ڈالرز تھیں جو کہ رواں برس اسی دورانیے میں کم ہو کر 22.7 ارب ڈالرز رہ گئی ہیں۔

’خلیجی ممالک سے آنے والی ترسیلات میں 2.5 ارب ڈالرز کمی ہوئی ہے۔ برطانیہ اور یورپی یونین سے پاکستان آنے والی ترسیلات زر میں تقریباً 50 کروڑ ڈالرز کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔‘

وہ سمجھتے ہیں کہ اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن بنیادی وجہ روپے کی قدر میں کمی ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’پچھلے ایک سال سے پاکستانی کرنسی بری طرح گراوٹ کا شکار ہے۔ ایک سال قبل ایک لاکھ روپے پاکستان بھیجنے کے لیے تقریبا 422 پاؤنڈز بھیجنا پڑتے تھے۔ اب ایک لاکھ روپے بھیجنے کے لیے تقریبا 233 پاؤنڈز بھیجنے پڑتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ترسیلات زر میں کمی واقع ہو رہی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’اکثر بیرونِ ملک مقیم پاکستانی انتظار کرنے لگے ہیں کہ پاکستانی کرنسی مزید گرے گی تو پھر ڈالر یا پاؤنڈز بھیجیں گے تاکہ زیادہ روپے مل سکیں۔ پچھلے کئی ماہ سے جاری ٹرینڈ کے مطابق بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا ماننا ہے کہ آنے والے دنوں میں کرنسی اسی طرح کمزور ہوتی رہے گی۔‘

اس حوالے سے کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جزل سیکریٹری ظفر پراچہ صاحب نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب حکومت درآمد کندگان کو قانونی طور پر اجازت دے کہ وہ ہنڈی حوالے سے ڈالر خرید کر امپورٹ کی ادائیگی کر سکتے ہیں تو بینکنگ چینل سے ترسیلات کیسے آئیں گی۔ اس وقت انٹربینک میں ڈالر تقریباً 287 روپے کا ہے، اوپن مارکیٹ میں 306 روپے کا اور گرے مارکیٹ میں 320 روپے کا ہے۔

’یعنی کہ بینک اور گرے مارکیٹ کا فرق تقریباً 33 روپے کا ہے۔ ایسی صورت میں بیرون ملک پاکستانی بینک کی بجائے گرے مارکیٹ میں ڈالرز بھیج رہے ہیں۔ اگر حکومت آفیشل طور پر کرنسی ایکسچینجرز کو درآمدات کی ادائیگی کرنے کی اجازت دے تو ہنڈی حوالے کا کام کم ہو جائے گا اور بیرون ملک پاکستانی آفیشل چینل سے ڈالر پاکستان بھیج سکیں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان سب سے زیادہ ترسیلات خلیجی ممالک سے حاصل کرتا ہے۔ کورونا کے بعد سے لے کر اب تک تقریبا ایک لاکھ بہتر ہزار افراد بےروزگار ہو کر پاکستان آچُکے ہیں۔ جو ترسیلات زر کم ہونے کی ایک اہم وجہ ہے۔‘

سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ترسیلات زر میں کمی کی بڑی وجہ عالمی مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہے۔ روس اور یوکرین جنگ کی وجہ سے تقریباً پوری دنیا اس وقت مہنگائی کی لپیٹ میں ہے۔برطانیہ میں مہنگائی کا پچاس سال کا ریکارڈ ٹوٹا ہے، امریکہ میں مہنگائی 40 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ جس کی وجہ سے بیرون ملک پاکستانیوں کی قوت خرید کم ہوئی ہے۔ بچت نہ ہونے کہ وجہ سے وہ زیادہ ڈالرز پاکستان بھیجنے سے قاصر ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ڈالر کے تین ریٹس نے بھی موجودہ حالات پیدا کیے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ انٹربینک میں ڈالر ریٹ بڑھائے اور روشن ڈیجیٹل اکاونٹس پر شرح سود بھی بڑھائے تا کہ بیرون ملک پاکستانی بینکنگ چینلز کے ذریعے ڈالر ملک میں لا سکیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو جون تک تین ارب 70 کروڑ ڈالرز قرض کی ادائیگی مشکل ہو جائے گی۔‘

عمر صفدر برطانوی نژاد پاکستانی ہیں اور پاکستان میں ریئل سٹیٹ کے کاروبار سے بھی منسلک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’بیرون ملک پاکستانی سب سے زیادہ سرمایہ رئیل اسٹیٹ میں لگاتے تھے۔ لیکن پراپرٹی کی خریدوفروخت میں زیادہ ٹیکسز لگنے کی وجہ سے یہ کاروبار تنزلی کا شکار ہے۔

’بیرون ملک پاکستانی گلہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ وہ پہلے ہی کھربوں روپیہ پراپرٹی میں لگائے بیٹھے ہیں۔ اور اسے منافع میں بیچنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ اس لیے مزید ڈالرز پاکستان نہیں بھیج رہے۔ اطلاعات ہیں کہ نئے بجٹ میں حکومت پراپرٹی پر مزید ٹیکس لگانے جا رہی ہے۔ اگر ایسا ہوا توترسیلات زر مزید کم ہوں گی۔‘

لاہور چمبر آف کامرس انڈسڑی پروگریسو گروپ کے صدر خالد عثمان صاحب نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’برآمدات 30 فیصد کم ہو گئی ہیں، جس سے ترسیلات بھی کم ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بیرون ملک پاکستانیوں کا پاکستانی معیشت پر اعتماد نہیں رہا۔ دو سال قبل عام بیرون ملک پاکستانی بھی پاکستانی ٹیکسٹائل میں سرمایہ لگانے کے لیے ڈالرز پاکستان بھیج رہے تھے۔ اب وہ پاکستان میں پھنسا ہوا پیسہ نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’بیرون ملک پاکستانی جانتے ہیں کہ غیر ملکی ہوائی جہاز کمپنیاں پاکستان میں صرف آن لائن ٹکٹ بیچ رہے ہیں۔ کیونکہ دفاتر میں ٹیکٹس بیچنے کے بعد منافع بیرون ملک بھیجنے کے لیے پاکستان میں ڈالرز نہیں ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’بیرون ملک پاکستانی سب سے زیادہ ڈالرز بھیجتے ہیں۔ لیکن حکومت ان کی پذیرائی نہیں کرتی۔ بینکس کو انہیں مارکیٹ سے بھی دس روپے زیادہ ریٹ دینا چاہیے۔‘

 ان کے مطابق ’بیرون ملک پاکستانیوں کو ڈار صاحب پر اعتماد نہیں۔ جب سے ڈار صاحب آئے ہیں بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے ڈالر بھیجنے کی رفتار سست ہو گئی ہے۔ ڈار صاحب کی غلط پالیسی کی وجہ سے پہلے بھی گرے مارکیٹ اور انٹربینک ریٹ میں فرق 50 روپے تک بڑھ گیا تھا۔ آج دوبارہ وہی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ڈار صاحب خاموش ہیں۔ کم از کم ٹی وی پر آ کر وہ یہ تو بتائیں کہ ان کے پاس ملک چلانے اور بیرون ملک پاکستانیوں سے ڈالرز منگوانے کا کوئی منصوبہ ہے بھی یا نہیں۔‘

پاکستان سافٹ وئیر ہاؤس ایسوسی ایشن ( پاشا) کے چئیرمین ذوہیب خان نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان کا بینکنگ نظام آئی ٹی فری کانسرز اور ایکسپورٹرز کے لیے مسائل پیدا کرتا ہے۔ حکومت نے جنوری 2023 کو نوٹیفیکیشن کیا کہ آئی ٹی ایکسپورڑز انٹرنیٹ بینکنگ کے ذریعے ڈالرز پاکستان لا بھی سکیں گے اور اگر کوئی بیرون ملک ادائیگی کرنی ہو وہ بھی کر سکیں گے۔

’یہ نوٹیفیکیشن صرف دو ماہ یعنی مارچ 2023 تک کیا گیا۔ لیکن سہولت نہ مل سکی۔ جب سٹیٹ بینک سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ابھی تک ان کے پاس ایسا سافٹ وئیر ہی نہیں ہے جو انٹرنیٹ کے ذریعے پاکستان سے بیرون ملک ادائیگی کر سکے۔

’سوال یہ ہے کہ اگر سافٹ وئیر ہی نہیں ہے تو نوٹیفیکیشن کیوں کیا گیا۔ اس وجہ سے اکثر فری لانسرز اور سافٹ وئیر کمپنیوں نے باہر کے ملک میں ہی ایک دفتر بنا رکھا ہے۔ وہ تمام ادائیگیاں باہر سے ہی کرتے ہیں اور صرف ضرورت کے مطابق ڈالرز پاکستان لاتے ہیں۔اس کے علاعہ پیچیدہ ٹیکس نظام بھی پاکستان ڈالر لانے میں بڑی رکاوٹ ہے۔‘

حالات کے پیش نظر یہ کہنا مناسب ہو گا کہ ییرون ملک پاکستانی اس وقت تک ڈالرز پاکستان نہیں بھیجیں گے جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آتا اور حکومت موثر اور قابل عمل معاشی پالیسی سامنے نہیں لاتی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ