جب شین وارن نے ’ایشز کی لوک داستان‘ میں نام لکھوایا

انگلینڈ کے سابق کپتان ایتھرٹن 1993 کی ایشز سیریز میں نوجوان آسٹریلیوی سپنر کی پہلی گیند کو یاد کرتے ہیں جسے آج تک کوئی بھلا نہ سکا۔

شین وارن 28 دسمبر، 2006 کو میلبرن میں اپنا آخری ٹیسٹ میچ کھیلتے ہوئے (اے ایف پی)

سابق برطانوی کرکٹر مائیکل ایتھرٹن اس شخص کے بارے میں سوچتے ہیں جنہوں نے ایک ہی گیند کروا کے ’ایشز کی لوک داستان میں اپنا نام لکھ دیا۔‘

انہیں 1993 کا وہ دن یاد ہے جب آسٹریلوی بولر شین وارن نے سٹیج پر اپنی آمد کا اعلان کیا۔

30 سال قبل چار جون کو اولڈ ٹریفرڈ میں ایک نوجوان آسٹریلوی کھلاڑی نے ایشز کرکٹ میں اپنی پہلی گیند کروانے کے لیے قدم بڑھایا اور ایک ایسی ڈیلیوری کی جو لیگ سائیڈ پر فاصلے سے پچ پر گرنے کے باوجود مائیک گیٹنگ کے سٹمپ کو جا لگی۔

اگرچہ اس گیند کو کافی عرصے تک ’صدی کی بال‘ قرار نہیں دیا گیا لیکن سٹیڈیم میں موجود یا ٹیلی ویژن دیکھنے والے کسی مداح کو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کوئی خاص واقعہ ہوا تھا۔

ایتھرٹن نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا ’میں آؤٹ ہو چکا تھا۔ بس میں آؤٹ ہو گیا۔ میں آؤٹ ہونے والا پہلا کھلاڑی تھا اور گیٹ کھیلنے پہنچ گئے اور دوسرے دن چائے کے وقفے سے ٹھیک پہلے ایک گیند کروائی گئی۔

’مجھے شین وارن کے بارے میں زیادہ باتیں یاد نہیں۔ انہوں نے محض ایک درجن ٹیسٹ میچ کھیل رکھے تھے۔

’ماضی میں جا کر اس لمحے کو دیکھنا اور سوچنا آسان ہے کہ وہ کھیلنے والے’عظیم بولرز میں سے ایک ہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اس مرحلے پر ان کی اوسط 30 تھی۔ گریم ہِک نے انہیں وورسٹر شائر میں تھوڑا ٹف ٹائم دیا تھا۔

’ایسا بہت سارے تجزیوں سے کئی روز قبل ہوا تھا اور مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے وہ گیند کروانے سے پہلے اس کی کوئی ویڈیو فوٹیج دیکھی تھی۔

’لہٰذا وہاں حقیقی حیرت کا عنصر پایا جا رہا تھا لیکن ٹیسٹ کرکٹ میں اس انداز میں آنے کی کیا ہی بات تھی۔

’وہ شخص جو دنیا کا سب سے بڑے سپنر ثابت ہوئے۔ انہوں نے اپنا نام ایشز کی لوک داستانوں میں لکھ دیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے ایشز کرکٹ میں کتنی وکٹیں لیں، 194 یا کچھ زیادہ لیکن وہ ایک ناقابل یقین بولر تھے۔‘

یہ اس ڈلیوری کا اثر تھا جس کی وجہ سے ٹی وی پر میچ دیکھنے والے لوگوں نے حیران ہو کر اپنے دوستوں کو فون کیے۔ یہ اثر شروع میں ہی نمایاں تھا۔

ایتھرٹن، جنہوں نے کبھی ایشز سیریز نہیں جیتی، کا ماننا تھا کہ لیگ سپن کے حالیہ عروج اور اس سے کام لینے کا سہرا آسٹریلوی کھلاڑی کے سر باندھا جا سکتا ہے، جسے وارن سے پہلے کچھ لوگوں نے ’مرتا ہوا فن‘ قرار دیا تھا۔

انگلینڈ کے سابق کپتان نے کہا ’میں نے چیلنج کا لطف اٹھایا۔ ان کے خلاف کھیلنے کے معاملے میں وہ ایک عظیم کرکٹر تھے کیوں کہ اگر آپ نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو وہ بڑے انصاف سے کام لیتے اور کہتے کہ آپ اچھا کھیلے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اگر آپ نے ان کے خلاف اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو آپ کے علم میں ہوتا کہ آپ نے رنز بنائے ہیں کیوں کہ انہوں نے آپ کو کوئی خراب گیند نہیں کروائی۔ وہ ایک انتہائی سخت حریف تھے اس لیے مجھے اس کے خلاف کھیلنا اچھا لگا۔

’میں نے انہیں بہت سیدھا سادہ حریف پایا اور یقیناً انہوں نے... لیگ سپن کے فن کو دوبارہ ایجاد کیا جو مرنے والا تو نہیں لیکن زیادہ مقبول بھی نہیں تھا۔

’زیادہ لیگ سپنرز نہیں تھے۔ شاید پاکستان میں (عبدل) قادر لیکن اس وقت ٹیسٹ میچ میں سپنرز نہیں تھے لیکن اب بہت ہیں۔‘

خود وارن نے اس واقعے کو ٹریڈ مارک کے انداز میں اہمیت نہیں دی اور صرف یہ کہا کہ ’میں نے جو کچھ کرنے کی کوشش کی وہ  لیگ سٹمپ پر پچ کرنا اور مناسب طریقے سے سپن کرنا تھا۔‘

جوناتھن اگنیو نے، جو ڈیلیوری کے بارے میں بی بی سی کے پروگرام ٹیسٹ میچ سپیشل میں تبصرہ کر رہے تھے اور بلے باز کی پیچھے والی پوزیشن پر موجود تھے، پہلے کہا کہ ’گیند گیٹنگ کے پیڈ پر لگی ہے۔‘

پھر ایک لمحے کے بعد انہوں نے کہا کہ ’وہ بولڈ ہو گئے! اچھا! ہمیں ری پلے کا انتظار کرنا پڑے گا میں آپ کو یہ نہیں بتا سکتا کہ اصل میں کیا ہوا ہے۔ ‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ