شین وارن، جنہوں نے لیگ سپن کو نئی زندگی بخشی

کرکٹ کی طویل تاریخ میں بہت سے عظیم کھلاڑی موجود ہیں لیکن بہت کم کھلاڑیوں نے کھیل کو اس طرح بدلا جس طرح آسٹریلیا کے لیگ سپنر شین وارن نے اپنے شاندار کیریئر کے دوران کھیل کو تبدیل کیا۔

آسٹریلوی لیجنڈ لیگ سپنر شین وارن دنیائے کرکٹ کے ایسے کھلاڑی تھے جنہوں نے اپنے شاندار کیریئر کے دوران کھیل کو تبدیل کر دیا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جمعے کو مشتبہ طور پر دل کا دورہ پڑنے سے تھائی لینڈ میں 52 سال کی عمر میں شین وارن کی موت نے کرکٹ کی دنیا کو صدمے سے دوچار کر دیا۔

انہوں نے لیگ سپننگ کے فن کو تن تنہا دوبارہ زندہ کیا جو پاکستان میں عبدالقادر کا کیریئر ختم ہونے کے بعد مکمل طور پر غائب ہو گیا تھا۔

دورہ پاکستان کے دوران جاری پہلے ٹیسٹ میچ میں آسٹریلیا کی قیادت کرنے والے پیٹ کمنز کے بقول: ’وارن کے آنے کے بعد کھیل ویسا نہیں رہا تھا اور ان کے موت کے بعد کھیل ویسا نہیں رہے گا۔‘

1992 میں سڈنی میں بھارت کے خلاف میچ میں شین وارن کا ڈیبیو کوئی ڈریم سٹارٹ نہیں تھا۔ اوپنر روی شنکر نے ڈبل سنچری بنائی اور مستقبل کے عظیم بلے باز سچن ٹنڈولکر نے 148 رنز سکور کیے لیکن وارن نے 150 رنز دے کر صرف ایک وکٹ لی۔ اس کے باوجود بھی کچھ نشانیاں سامنے آئیں کہ وارن کوئی عام بولر نہیں۔

ایک بات یہ ہے کہ انہوں نے 45 اوررز کروائے۔ ایک سپنر کے لیے اتنے اوورز کروانا بہت مشکل کام ہے جو کسی فاسٹ بولر کی طرح زیادہ جسمانی دباؤ کا شکار نہیں ہوتا۔

وارن کے کیریئر کی خاص بات یہ ہے کہ وہ سات سو ٹیسٹ وکٹیں لینے والے پہلے کھلاڑی بن گئے۔

وہ بھرپور کنٹرول کے ساتھ تیز سپن کی صلاحیت کے مالک تھے۔ یہ ایسی صلاحیت ہے جسے عام طور پر لیگ سپنر کے دائرے سے باہر سمجھا جاتا ہے۔

بعد میں انہوں نے اسی انداز میں کھیل میں حصہ لیا۔ سہنرے رنگے ہوئے بالوں، کان میں بُندے اور مخالف بلے باز پر چڑھائی یا زبانی طور پر برا بھلا کہنے پر تیار۔ اس انداز والے شین وارن مخصوص وضع قطع کے مالک تھے۔

1993 میں برطانیہ کے اولڈ ٹریفرڈ سٹیڈیم میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ میں وارن کی ڈیلیوری ’بال آف دا سینچری‘ کے طور پر مشہور ہو گئی۔

وارن نے شاندار لیگ بریک کا مظاہرہ کیا جو انگلینڈ کے مائیک گیٹنگ کے پیڈ کے باہر گیا جو سپن بولنگ کو کھیلنے والے مشہور کھلاڑی تھے۔

گیند مضبوط بلے باز کے گرد گھوم کر سٹمپ کے اوپری حصے کو لگی۔ وارن کے گیٹنگ کو کلین بولڈ کرنے کے بعد کمنٹیٹر رچی بینو نے کہا کہ ’اور انہوں نے یہ کر دکھایا۔ انہوں نے سب سے خوبصورت ڈیلیوری کے ساتھ آغاز کیا ہے۔‘

بینو کا مزید کہنا تھا: ’گیٹنگ کو قطعی اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہوا ہے۔ انہیں ابھی تک پتہ نہیں چل سکا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

برطانیہ کے سابق کپتان حیران ہو کر ارد گرد دیکھ رہے تھے۔ وارن کی گیند اتنی غیر معمولی تھی کہ گیٹنگ کے ساتھی کھلاڑی صرف ایک ہی طریقے سے اسے سمجھ سکتے تھے۔

گیٹنگ کے ساتھی بلے باز گریم گوچ نے مذاق کے طور پر کہا: ’اگر یہ کوئی پنیر والا رول ہوتا تو ان (گیٹنگ) سے بچ کر نہ جاتا۔‘

تاہم جو کچھ ہوا تھا گیٹنگ نے بھی ضرور اس کی تعریف کی۔ اس ڈیلیوری کے بعد وارن 20 ویں صدی کے ’وزڈن کرکٹرز‘ میں سے ایک بننے کے راستے پر گامزن ہو گئے۔

وزڈن کرکٹرز میں جیک ہوبز، ڈونلڈ بریڈمین، گارفیلڈ سوبرز اور ویوین رچرڈ شامل تھے۔

گیٹنگ نے جمعے کو سکائی سپورٹس کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں وہ نمبر ون تھے۔‘

گیٹنگ کے بقول: ’یہ اچھی بات ہے کہ وہ (وارن) ہمیشہ کہتے تھے کہ’اس کے لیے شکریہ دوست۔ اس سے میرے کیریئر کا آغاز ہوا۔‘ میں اتنا ہی کہہ سکتا تھا کہ ’یہ میرے لیے کافی اچھا ہے۔ جیسے بہت سے دوسرے کھلاڑیوں کے لیے جو ایسے ہی انجام سے ہمکنار ہوں گے۔‘

اچانک ہی لیگ سپنرز کا فیشن کھیل میں لوٹ آیا اور ہر ٹیم چاہتی تھی کہ وہ اس میں شامل ہو چاہے کوئی وارن کی برابری نہ کر سکتا ہو جن کی ساکھ کے بارے میں لب لباب ہیمپشائر کاؤنٹی اور انگلینڈ کے لیگ سپنر میسن کرین نے اپنی ٹویٹ میں بیان کیا۔

کرین کے بقول: ’آٹھ سال کی عمر میں شین وارن نے مجھے کھیل سے پیار کرنا سکھا دیا۔ تب سے مجھے ان سے ہر روز مکمل ترغیب ملتی رہی۔‘

سری لنکا کے دائیں ہاتھ سے کھیلنے والے آف سپنراور آٹھ سو کھلاڑیوں کو آؤٹ کر کے ٹیسٹ کرکٹ میں ریکارڈ وکٹیں لینے والے متھئیا مرلی دھرن نے کہا کہ وارن ’لیگ سپن کے فن کو زندہ کرنے والے حقیقی باصلاحیت کھلاڑی تھے۔‘

جب شین وارن وسیم اکرم اور ثقلین مشتاق ایک ٹیم میں کھیلے

یوں تو بین الاقوامی کرکٹ سے 2007 میں ریٹائر ہو گئے تھے لیکن 2015 میں انہوں نے پاکستانی اور بھارتی کرکٹ کھلاڑیوں سمیت دیگر بین الاقوامی کرکٹرز سے مل کر امریکہ میں کرکٹ کے فروغ کی کوشش کی۔

پانچ نومبر 2015 کو ایسی ہی کوشش میں امریکہ کے شہر نیویارک میں ایک کرکٹ میچ کا انعقاد کیا گیا۔ اس میچ میں کھیلنے والی ایک ٹیم کی قیادت شین وارن نے کی اور دوسری ٹیم کے کپتان بھارتی بلے باز سچن ٹنڈولکر تھے۔

اس موقع پر بات کرتے ہوئے شین وارن نے کہا تھا: ’اب امریکہ میں بھی کئی لوگ کرکٹ کھیلتے ہیں۔ وہ کرکٹ کو پسند کرتے ہیں۔ اب موقع ہے کہ اس کا فائدہ اٹھایا جائے اور جو لوگ کرکٹ کو پسند کرتے ہیں وہ اپنے امریکی دوستوں کو بھی کھیل دکھانے کے لیے لائیں اور انہیں بتانے کا آغاز کریں کہ دنیا میں فٹ بال کے بعد سب سے زیادہ کھیلی جانے والی گیم کرکٹ کیوں ہے۔‘

یہ واحد موقع تھا جب شین وارن اور وسیم اکرم ایک ہی ٹیم میں اور سچن ٹنڈولکر کے خلاف کرکٹ کھیلے تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل