بھارت کے سابقہ ریکارڈ ساز بلے باز سچن ٹنڈولکر نے انکشاف کیا ہے کہ وہ کئی سال تک میچ سے پہلے کی رات کو سو نہیں پاتے تھے۔
بھارتی اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کو دیے گئے ایک حالیہ نٹرویو میں سچن ٹنڈولکر نے بتایا کہ کسی بھی اہم میچ سے پہلے پریشانی کا شکار ہونا کسی بھی کھلاڑی کے لیے ممکن ہے لیکن سوچ پر قابو پا کر اس سے نمٹا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ کسی چیز کی پروا کرتے ہیں تو یقینی طور پر اس حوالے سے آپ کچھ بےچینی محسوس کریں گے۔ میرے ساتھ ایسا ہوا کیوں کہ میں نے ہمیشہ اپنی کرکٹ کی پروا کی اور میں ہر بار اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا چاہتا تھا۔ میں کہوں گا کہ اپنے کیریئر کے پہلے 12 سالوں کے دوران کھیل کے موقعے پر میں ٹھیک سے سو نہیں پاتا تھا۔ میں مسلسل سوچتا رہتا تھا کہ میں بولروں کا سامنا کیسے کروں گا۔ وہ کیسی بولنگ کریں گے اور میرے پاس کیا آپشن ہیں؟ میں یہ سوچتا رہتا تھا اور اپنی نیند سے لڑتا رہتا تھا۔‘
اس پریشانی پر قابو کیسے پایا؟
اس پریشانی پر قابو پانے کے حوالے سے سچن کا کہنا تھا کہ: ’بعد میں، میں اس نے اس پریشانی سے نمٹنا سیکھ لیا تھا۔ میں نے اسے قبول کرنا شروع کر دیا اس طرح میرا جسم اور دماغ کھیل کے لیے تیار ہو جاتا۔ میں نے سوچا یہ ٹھیک ہے، مجھے اس احساس سے لڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے اسے تسلیم کر لیا۔ میں نے کہا یہ ٹھیک ہے یہاں تک کہ اگر میں رات ساڑھے بارہ یا ایک بجے بیدار ہو جاؤں اور میں ٹی وی دیکھنا ئا موسیقی سنا شروع کر دوں یا جو کچھ بھی ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسے تسلیم کرنا اہم تھا۔ جتنا میں نے خود کو سمجھنا شروع کیا چیزیں اتنی ٹھیک ہو گئیں۔ میں اسے بالکل ٹھیک نہیں کہوں گا لیکن میں جانتا تھا کہ یہ معمول کی بات ہے۔ میں نے اس کے ساتھ صلح کر لی تھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا انہیں ایسے مسائل کا سامنا اپنے تمام کیریئر کے دوران رہا، اس پر سچن ٹنڈولکر کا کہنا تھا کہ: ’جی ہاں یہ سب میرے پورے کرئیر کے دوران رہا۔ آؤٹ ہونے کے بعد میں اپنے بھائی سے اس پر تبادلہ خیال کرتا تھا۔ اور یہ میرے آخری ٹیسٹ تک بھی جاری رہا۔‘
سچن کے مطابق چند عادات ہمیشہ ساتھ رہتی ہیں جیسا کہ ’آخری ٹیسٹ میں آؤٹ ہونے کے بعد بھی شام کو ہم نے اس پر بحث کی تھی۔‘
ڈریسنگ روم میں لیپ ٹاپ کیا کرے گا؟
ٹیکنالوجی کے استعمال کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے سابق بھارتی کپتان نے کہا: ’ٹیکنالوجی نے سب کچھ بدل دیا ہے۔ 2002 میں ایک لیپ ٹاپ ڈریسنگ روم میں لایا گیا تو میں نے کہا ڈریسنگ روم میں لیپ ٹاپ کیا کرے گا؟ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ٹیکنالوجی کو قبول کیا جانے لگا۔ ہماری ٹیم میٹنگز زیادہ درستگی آ گئی۔ اب یہاں انفرادی سوچ کی جگہ نہیں تھی۔ تو میٹنگز پہلے کی طرح نہیں تھیں جہاں ہم کہا کرتے تھے۔۔ یاد ہے نا میلبرن میں ہم نے انہیں کیسے آؤٹ کیا تھا لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ میلبرن میں ہم نے کس طرح بلے بازوں کو آؤٹ کیا۔ اب ہمارے پاس سکرین پر ڈیٹا تھا جہاں آپ نشاندہی کر سکتے تھے اور کہہ سکتے تھے کہ بیٹسمین کا پاؤں کہاں تھا۔ ہم جانتے تھے کہ ایک خاص بیٹسمین کتنی بار کس پوزیشن پر آؤٹ ہوا ہے۔‘
وراٹ کوہلی کی مدد کیسے کی؟
وراٹ کوہلی کی جانب سے 2014 کی انگلینڈ سیریز میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکنے کے بعد ان کے ساتھ کیے گئے سیشنز کے بارے میں بات کرتے ہوئے سچن نے کہا کہ انہوں نے کوہلی کو ہپ پوزیشن کے بارے میں مشورے دیے تھے۔
سچن کے مطابق: ’ہپ پوزیشن کے بارے میں میں نے بتایا تھا کہ اگر وہاں سے سیدھی پوزیش نہ لی جائے تو آپ کے کندھے خود بخود کھل جاتے ہیں۔ کولہے کی پوزیشن درست ہونی چاہیے تاکہ کندھے نہ کھلیں۔ کئی بار لوگ آپ کو بتائیں گے کہ آپ کا کندھا کھل رہا لیکن وہ اس کی اصل وجہ بتانا بھول جاتے ہیں۔‘