آئین کے تحت چلیں، نہیں کرسکتے تو آئین بدل لیں: شاہد خاقان عباسی

سابق وزیر اعظم اور ن لیگ کے سینیئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ عمران خان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ عوام کریں گے۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ ہم سب کو آئین کے اندر آنے کی ضرورت ہے اور اگر نہیں آ سکتے تو آئین کو بدل لیں (انڈپینڈنٹ اردو)

سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ اگر نو مئی کے واقعات کا مقابلہ کرنے کے لیے آئین کو توڑیں گے تو پھر مزید خرابی پیدا ہو گی۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ ایک خصوصی نشست میں کہا کہ جب معاملہ آئین و قانون میں رہتا ہے تو وہ قابل قبول ہے لیکن جب آئین سے باہر جائیں اور پرسیکیوشن یا ظلم و ستم کی بو آ جائے پھر وہ منفی ثابت ہوتا ہے۔ ان کا اصرار تھا کہ یہ چیزیں ماضی میں بھی نہیں چلیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ نو مئی ایک بڑا سانحہ تھا کیونکہ فوجی تنصیبات پر جتھوں نے حملہ کیا لیکن اگر آپ اس خرابی کا مقابلہ کرنے کے لیے آئین اور قانون توڑیں گے تو پھر مزید خرابی پیدا ہو گی۔

’آپ پراسیکیوٹ کریں، تیزی سے کریں، شواہد اکھٹے کریں اور لوگوں کو عدالتوں میں لے کر جائیں یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔‘

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے مقدموں پر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ان (مقدموں) کی حمایت یا تحفظات سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں فوجی عدالتیں نہیں ہیں۔ ’ہم نے دہشت گردی کے لیے سن سیٹ کلاز کے تحت فوجی عدالتیں بنائی تھیں۔ ’میری نظر میں فوجی عدالتیں نہیں ہیں۔‘

سول ملٹری تعلقات میں توازن پر انہوں نے کہا کہ ’توازن آئین مہیا کرتا ہے۔ پاکستان میں توازن کبھی نہیں رہا اور یہ ایک حقیقت ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ جس ملک میں 35 سے 40 سال فوج براہ راست اقتدار میں رہی ہو وہاں اثرات رہتے ہیں۔ ’اگر ہم آنکھیں بند کر لیں گے تو اثرات نظر نہیں آئیں گے، لیکن وہ اثرات موجود ہیں۔

’ملک کے معاملات کو حل کرنے پر توازن برقرار رہتا ہے۔ جب تصادم کا ماحول ہو تو خرابی پیدا ہوتی ہے۔‘

شاہد خاقان عباسی کے مطابق تمام ادارے وقتاً فوقتاً ایک دوسرے کی حدود کو جانچتے رہتے ہیں۔ ’ہم سب کو آئین کے اندر آنے کی ضرورت ہے اور اگر نہیں آ سکتے تو آئین کو بدل لیں۔‘

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا الیکشن وقت پر ہوں گے۔ ’قومی اسمبلی کی مدت مکمل ہونے کی صورت میں اکتوبر نہیں تو نومبر میں (الیکشن ہو جائیں) گے۔

اسمبلی کی مدت میں توسیع پر انہوں نے کہا اس کی مدت میں نہ توسیع ہو سکتی ہے اور نہ ہونی چاہیے، یہ ایک غلط روایت ہوگی۔

’آئین اس حوالے سے واضح نہیں کہ کن وجوہات پر توسیع ہو سکتی ہے۔ انتخابات وقت پر ہوں تو جمہوریت اور وقت کے لیے بہتر ہے۔‘ 

انہوں نے پاکستان مسلم لیگ ن کے ’ووٹ کو عزت دو‘ کا سلوگن متعارف کروانے اور اس پر قائم رہنے سے متعلق کہا اس کا مقصد یہی تھا کہ الیکشن چوری نہیں ہونے چاہییں جس پر ہر جماعت کو قائم رہنا پڑے گا ورنہ بات آگے نہیں بڑھے گی۔

’تاثر یہ ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد ووٹ کو عزت نہیں دیتے، لیکن اقتدار میں ہی اس سلوگن کا امتحان ہوتا ہے۔‘ 

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے خلاف مقدمے میں وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے پی ٹی آئی حکومت میں وزیر قانون رہنے والے فروغ نسیم کی خدمات حاصل کرنے کے سوال پر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اخلاقی طور پر اس میں کوئی مسئلہ نہیں، لیکن بہتر یہ ہوتا کہ ایسے معاملے میں فروغ نسیم کی خدمات نہ لی جاتیں۔

اکنامک فیسلیٹیشن کونسل کے قیام پر انہوں نے کہا ملک میں سکیورٹی کے کافی مسائل ہیں، اس لیے جو سرمایہ کاری آتی ہے اس میں فوج کا کافی عمل دخل ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا چونکہ فوج این او سی فراہم کرتی ہے اور ماضی میں بھی اسے ملنے میں کئی سال لگ جاتے تھے لہٰذا بہتر سمجھا گیا کہ اس سے فیسلیٹیشن میں بہتری آئے گی۔

’اگر یہ ادارہ فیسلیٹیشن تک رہتا ہے جو اس کا مقصد ہے تو درست ہے، جب یہ پالیسی بنانے یا حکومت کی اوور سائٹ کی جانب جائے گا تو پھر مسائل پیدا ہوں گے۔‘

ری امیجننگ پاکستان کا پلیٹ فارم بنانے پر انہوں نے کہا اگر ان کی جماعت کو ان سے کوئی شکایت ہے تو وہ اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی نے ان سے اس پلیٹ فارم کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا۔

’میں اس بارے میں کافی محتاط رہتا ہوں۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو غیر جانب دار اور غیر سیاسی ہے۔ کوئی بھی جماعت وہاں بات کر سکتی ہے جس کی ہم دعوت بھی دیتے ہیں۔‘

پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک اجلاس میں سابق وزیر خزانہ اور جماعت کے سینیئر رہنما مفتاح اسماعیل پر ان کا نام لیے بغیر شدید تنقید سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وہاں جو کہا گیا انہیں اس کا مقصد سمجھ نہیں آیا اور نہ اس بات کا سیاق و سباق سمجھ سکا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس وقت مفتاح اسماعیل پارٹی کے عہدے دار تھے، ان سے اس حوالے سے پوچھا جا سکتا تھا اور پارٹی کے صدر شہباز شریف بھی پوچھ سکتے تھے۔

پارٹی کے عہدے چھوڑنے اور گذشتہ دنوں لندن میں نواز شریف سے ملاقات پر انہوں نے بتایا کہ ملاقات کے دوران جماعت میں عہدوں سے متعلق ان کی کوئی بات نہیں ہوئی۔ 

’میں نے پارٹی کا کوئی عہدہ نہیں رکھا تھا۔ 2019 میں پارٹی نے ذمہ داریاں سونپیں، میں نے تب کہا جب بھی لیڈر شپ میں تبدیلی آتی ہے تو میں اس عہدے پر نہیں رہ سکوں گا۔ مریم نواز کی تعیناتی کے بعد میں نے استعفی دے دیا۔‘

انہوں نے کہا وہ چاہتے ہیں کہ ان کی برسر اقتدار جماعت مسائل بھی حل کرے۔ ’ملک کی ضرورت ریفارم یا اصلاحات ہیں۔ ہمارا اصلاحات کا ایجنڈا کیا ہے؟ میں اس سے آگاہ نہیں۔‘

’میری رائے واضح ہے کہ ان رویوں سے مسائل حل نہیں کیے جا سکتے کیونکہ نظام میں صلاحیت نہیں۔ سٹیک ہولڈرز کو بیٹھ کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ ملک کو لے کر کیسے بڑھنا ہے۔‘

نواز شریف کی وطن واپسی سے متعلق انہوں نے کہا یہ شعبہ جاوید لطیف کے پاس ہے۔ ’ان سے ہر ہفتے رابطہ کرتا ہوں کہ ان کے آنے کی تاریخ آئی ہے یا نہیں۔ کچھ روز قبل ان سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ ان کے آنے کی تاریخ تاحال نہیں آئی۔‘

عمران خان کے مستقبل کے حوالے سے انہوں نے کہا سیاسی جماعت یا رہنما کے مستقبل کا عوام فیصلہ کرتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست