یونان کشتی حادثہ: لاپتہ افراد کے اہل خانہ کا لاشیں نکالنے کا مطالبہ

روئٹرز کے مطابق یونانی ساحل کے قریب ڈوبنے والی کشتی کے 104 مسافروں کو بچایا جا چکا ہے، جبکہ کئی خاندان ملبے کو سمندر کی تہہ سے نکال کر سینکڑوں افراد کی لاشیں برآمد کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والے مطلوب حسین جب سے یونان کے قریب بحری جہاز کے خطرناک حادثے کے دوران لاپتہ ہوئے، تب سے ان کے بھائی عادل نے ایتھنز میں واقع ان کے گھر کا دروازہ اس امید میں کھلا رکھا ہوا ہے کہ وہ واپس آئیں گے۔ یہ اس وقت تک کھلا رہے گا جب تک ان کی لاش نہیں مل جاتی۔

تینتالیس سالہ مطلوب حسین کا شمار ان سینکڑوں تارکین وطن میں ہوتا ہے، جن کا تعلق پاکستان، شام اور مصر سے ہے اور 14 جون کو لیبیا سے اٹلی جانے والی کشتی بین الاقوامی پانیوں میں پائلوس کے ساحل پر ڈوبنے کے بعد انہیں ہلاک قرار دیا جا رہا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مجموعی طور پر 104 افراد کو بچایا گیا اور 82 لاشیں ملی ہیں، لیکن زندہ بچ جانے والے افراد کے اعداد و شمار کے مطابق جہاز میں 750 افراد سوار تھے۔

کئی خاندان حکام سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ملبے کو سمندر کی تہہ سے نکال کر ان سینکڑوں افراد کی لاشیں برآمد کی جائیں، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کشتی میں پھنسے ہوئے تھے۔

عادل حسین نے جہاز کرائے پر لے کر لاشیں نکالنے کے لیے یونان پر زور دیتے ہوئے کہا: ’انہیں چاہیے کہ ان لوگوں کو باہر نکالیں جو اندر ہیں۔ اگر وہ مر چکے ہیں تو انہیں باہر نکالا جائے۔

’اگر ریاست ایسا نہیں کر سکتی، تو ہم اپنے گھر بیچ دیں گے، ہم پیسے ادھار لیں گے۔ بس مجھے لاش دے دو۔‘

یونان کے حکومتی حکام نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ جہاں کشتی ڈوبی وہاں گہرائی تقریبا پانچ ہزار میٹر ہے، جس کے باعث ملبہ نکالے جانے کے امکانات بہت کم ہیں۔

حسین نے زندہ بچ جانے والے ایک شخص کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ان کے بھائی کو دوسرے لوگوں کے ساتھ کشتی کے ریفریجریٹر میں ڈیک کے نیچے رکھا گیا تھا۔

انہوں نے روتے ہوئے کہا، ’ہم سب – میری ماں، میرا والد، میرے بھائی کی بیوی - جاننا چاہتے ہیں کہ وہ مر گیا یا زندہ ہے؟ اگر ہمیں اس کی لاش نہ ملی، تو ہم اپنی باقی تمام عمر دروازہ کھلا رکھیں گے۔ ’میں یونان میں اپنے بھائی کا انتظار کروں گا۔‘

حسین ترکی کے راستے اپنے ایک خطرناک سفر کے بعد 2007 سے اس ملک میں مالی کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی نمائندگی کرنے والے وکلا کا ارادہ ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات کرنے والے عدالتی حکام سے جمعرات کو مطالبہ کریں گے کہ ڈوبی ہوئی کشتی نکالی جائے۔

چار پاکستانی خاندانوں کی نمائندگی کرنے والے وکیل تاکس زوٹس نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’یہ، سمندر کی تہہ میں موجود متاثرین، ان کے اہل خانہ اور ان کے پیاروں کا حق ہے۔‘

لاپتہ ٹائٹینک آبدوز اور اس کے ارب پتی مسافروں کے لیے شروع کیے گئے مہنگے ریسکیو آپریشن کے مقابلے میں اس کشتی کے ملبے میں عدم دلچسپی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے تاکس زوٹس نے کہا کہ یہ ’عجیب و غریب‘ تضاد ہے۔

انہوں نے کہا، ’اگر ہم لوگوں کا موازنہ کریں تو ہم 600 کے مقابلے میں پانچ کی بات کر رہے ہیں۔

’لیکن بدقسمت زیر زمین ہیں۔ ان کی بدقسمتی یہ بھی تھی کہ وہ بحیرہ روم کے سب سے گہرے حصے میں ڈوبے۔‘

ٹائٹینک آبدوز کا ملبہ گہرے سمندر میں غوطہ خوری کرنے والی ایک روبوٹک گاڑی کو ملا جس کو تین ہزار میٹر سے زیادہ نیچے بحر اوقیانوس کی تہہ میں تلاش کے لیے بھیجا گیا تھا۔ گذشتہ ہفتے سمندر کی تہہ سے ممکنہ انسانی باقیات ملی تھیں اور انہیں نکالا گیا۔

شناخت کا انتظار
دو بھائیوں میں سب سے پہلے مطلوب حسین 2005 میں یونان گئے لیکن کئی سال تک غیر دستاویزی زندگی گزارنے کے بعد وہ دو سال قبل پاکستان واپس آئے تھے۔

انہوں نے واپس جانے کی کوشش کی اور اس بار اٹلی جانے کا فیصلہ کیا، اس سفر کے اخراجات کے لیے دوستوں سے سات ہزار ڈالر کا قرض لیا۔

مطلوب حسین کے اہل خانہ نے جب انہیں بتایا کہ پاکستان میں ان کے پاس نہ کھانے کچھ ہے اور نہ کرنے کو کوئی کام، پھر بھی مطلوب حسین نے اپنے اہل خانہ پر زور دیا کہ وہ غیرقانونی طریقے سے نہ آئیں۔

’میں کہتا ہوں آپ زندہ ہیں – یہ بہتر ہے۔ اگر آپ اس طریقے سے آئیں گے تو مر جاؤ گے۔ اور اگر آپ مر گئے سب مر جائیں گے۔‘

ڈی این اے جمع کرنے کے عمل میں شامل ایک سینئر عہدیدار نے روئٹرز کو بتایا کہ اب تک یونان میں رشتہ داروں یا بیرون ملک سے بھیجے گئے تقریبا 350 ڈی این اے نمونے حاصل کیے گئے ہیں، جن میں سے زیادہ تر پاکستان سے ہیں۔

چونکہ یونانی قانون کے تحت تحقیقات خفیہ ہیں، لہذا عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اب تک 82 میں سے صرف 20 لاشوں کی شناخت ہوئی ہے۔

یونانی حکومت نے شناخت کے عمل کی پیش رفت پر فی الحال تبصرہ نہیں کیا۔

جہاز کے تباہ ہونے کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔ زندہ بچ جانے والوں کا کہنا ہے کہ ان کا جہاز یونانی کوسٹ گارڈ کی جانب سے کھینچنے کی تباہ کن کوشش کے بعد الٹ گیا تھا، تاہم یونان اس بات کی تردید کرتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کوسٹ گارڈ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ کشتی ڈوبنے کے تین ہفتے بعد اب تلاش کی مہم بنیادی طور پر کمرشل بحری جہازوں کے ذریعے کی جا رہی ہے، جنہیں یونانی حکام کی جانب سے علاقے کی نگرانی کے لیے کہا گیا ہے۔

چیف کورونر نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ہلاک شدگان کی لاشیں ریفریجریٹرز میں رکھی ہیں۔ حسین اب بھی یہ سننے کے منتظر ہیں کہ آیا ان کا ڈی این اے میچ ہوا یا نہیں۔

پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے ایک عہدیدار عالم شنواری نے کہا کہ پاکستان نے گذشتہ ہفتے یونان کو 200 سے زیادہ ڈی این اے نمونے بھیجے تھے اور مزید جمع کیے جائیں گے۔ پاکستان نے فنگر پرنٹس بھی بھیجے ہیں۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ یونانی حکام کی جانب سے تصدیق کے بعد لاشیں پاکستان منتقل کی جائیں گی۔

55 سالہ محمد ایوب، جن کے 28 سالہ بھائی محمد یاسین بھی تباہ ہونے والی اس کشتی پر سوار تھے، نے کہا کہ محمد یاسین کے دو بچوں کے نمونے بھیجے گئے ہیں اور انہیں امید ہے کہ شناخت ہو جائے گی۔

ان کا کہنا تھا: ’ہمیں کم از کم ان کے بارے میں پتا چل جائے گا یا لاش مل جائے گی، لہذا ہم ان بچوں کو بتا سکیں گے کہ آپ کے والد ایک حادثے کا شکار ہوئے تھے اور یہ ان کی قبر ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا