’کشمیر میں صرف فوجی گاڑیاں ہی آزادی سے گھوم سکتی ہیں‘

چھ، سات اور آٹھ اگست کو آپ ہماری زندگی میں شامل مت کیجیے۔ اگر یہ تین دن تین صدیوں کے برابر محسوس ہو رہے ہیں، لیکن میں تنہائیوں، وسوسوں اور خوف میں اتنی گھری ہوئی ہوں کہ مجھے تاریخ، دن اور لمحوں کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔

باہر سڑک پر فوجی گاڑیوں کی مزید پیش رفت ہو رہی ہے مگرہماری گلی پھر سنسان نظر آ رہی ہے (اے ایف پی) 

 

چھ، سات اور آٹھ اگست کو آپ ہماری زندگی میں شامل مت کیجیے۔ اگر یہ تین دن تین صدیوں کے برابر محسوس ہو رہے ہیں، لیکن میں تنہائیوں، وسوسوں اور خوف میں اتنی گھری ہوئی ہوں کہ مجھے تاریخ، دن اور لمحوں کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔

ہمارا باہر کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا تھا، پر آج گلی میں اتنی فوجی گاڑیاں دیکھ کر گیٹ کو بند کرنا ہی پڑا۔ چند گز دور ہماری گلی بڑی سڑک سے ملتی ہے اور اس پر بھی اکا دُکا گاڑیوں کے چلنے کی آوازیں آ رہی ہیں جس سے ہمیں یہ احساس تو ہو رہا ہے کہ شاید زندگی کی رمق ابھی موجود ہے، حالانکہ کھڑکی کے پردے کو ذرا سرکا کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف فوجی گاڑیاں ہی ہیں جو کشمیر میں آزادی سے گھوم پھر سکتی ہیں۔

ٹی وی پر میں نے سنا کہ جموں و کشمیر اب یونین ٹیریٹری ہے، اب ہم سرے سے بے دخل کر دیے گئے ہیں۔ 

تین روز سے گھر میں صرف دال اور چاول پک رہے ہیں، دودھ تقریباً ختم ہو گیا ہے اور نان روٹی پہلے روز سے نہیں مل رہی ہے کیونکہ سری نگر میں تقریباً تمام نان بائی آس پاس کے دیہات سے آتے ہیں، وہ چار اگست سے ہی گاوں چلے گئے ہیں اور واپسی کا راستہ مسدود کر دیا گیا ہے۔

بسکٹ نے نان کی کمی کو پورا کر دیا ہے۔ یہ شاید ہماری معاشی ترقی ہے جو ہماری کھلی جیل میں گھروں میں اب تک میسر ہے۔

جمعے کا دن آیا۔ مسجد میں نمازیوں کی سرگوشیوں میں سنا گیا ہے کہ رات کو دو خطوط مسجد میں ملے ہیں ایک خط سکیورٹی اہلکار کا جس میں امام سے سخت لہجے میں تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ بھارت کے فیصلے اور کشمیر کے حالات پر کوئی بات نہیں کریں گے ورنہ انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت اس کو باقی ماندہ زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنا ہو گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 

دوسرا خط خراب لکھائی میں لکھا گیا ہے جس میں شہریوں سے کہا گیا ہے کہ اگر کسی نے اپنی زمین یا جائیداد کسی غیر کشمیری کو فروخت کی تو اس کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے گا۔ 

امام صاحب پریشان ہیں کہ جمعے کے خطبے میں کیا کہا جائے کیونکہ اکثر خطبوں میں کشمیر میں جاری تشدد اہم موضوع رہا ہے۔ 

ہمارے محلے میں تقریباً پانچ مسجدیں ہیں جن سے اذانیں بیک وقت بلند ہوتی ہیں۔ اذانیں تو ہوئیں لیکن گھر کا دروازہ کھولنے سے سبھی کترا رہے ہیں۔ پڑوسی کے بیٹے نے ہمارے دروازے پر دستک کیا دی کہ میری جان نکل گئی، وہ میرے گھر میں میرے ملازم کو مسجد میں جانے کے لے کہہ رہے ہیں، ملازم میری طرف دیکھ رہا ہے اور میں باہر موجود سکیورٹی اہلکاروں کو۔

میرا ملازم کہہ رہا ہے، ’ویسے بھی جموں و کشمیر پولیس کے ہاتھوں میں اسلحہ نہیں رکھا گیا ہے آج اگر مرنا بھی ہو گا تو باہر کا فوجی مار سکتا ہے اور اگر جمعے کو موت لکھی ہو گی تو اس کو کون ٹال سکتا ہے۔‘

میں یہ فیصلہ نہیں کر پا رہی ہوں کہ ملازم کو جانے دوں یا نہیں، نماز سے روک بھی نہیں سکتی۔ عجیب مخمصے کا شکار ہوں کہ پڑوسی کا بیٹا اور میرا ملازم دروازے سے نکل جاتے ہیں۔ 

اوپر آسمانوں میں چند سو میٹر کی اونچائی پر کئی ہیلی کاپٹر ہمارے ارد گرد چکر لگا رہے ہیں، یہ منظر ہم پہلی بار دیکھ رہے ہیں، شاید بی جے پی کی حکومت اپنے جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہونے کا رعب ہم پر ڈال رہی ہے۔ 

نہ جانے اس وقت مجھے ابھنندن کی کیوں یاد آ رہی ہے اور میں پہلی بار مسکرانے کی کوشش کرتی ہوں۔

ابھی آدھا گھنٹہ بھی نہیں ہوا کہ پڑوسی کا بیٹا اور میرا ملازم نماز پڑھ کر واپس آئے اور کہہ رہے ہیں کہ بغیر اسلحہ کے کشمیری پولیس نمازیوں کی نہ صرف گنتی کر رہے تھے بلکہ ہر ایک ایک کی شکل کو ذہن کے کیمرے میں بھی محفوظ کر رہے تھے۔

امام صاحب نے مختصر نماز پڑھ کر دوسری گلی کا رخ کیا اور نمازیوں نے بغیر بات چیت کے آنکھوں کی اداسی سے ایک دوسرے کو سب کچھ کہہ دیا۔ پڑوسی کا بیٹا کہہ رہا ہے ہر کوئی بھارتی حکومت کے فیصلے پر انتہائی غمزدہ ہیں اور دل اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔

پھر جب بات کرنے پر پہرے لگے ہیں تو ہر کوئی اندر ہی اندر کُڑھ رہا ہے، اللہ نہ کرے یہ غصہ کسی طوفان کی شکل اختیار کرے۔ 

میں کمرے میں جا کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتی ہوں۔ سرکاری ترجمان ٹی وی پر بیان دیتے ہیں کہ کشمیر میں جمعے کو لوگوں نے سکون سے نماز ادا کی اور بھارتی فیصلے کے بعد یہ پہلا جمعہ خیر وعافیت سے گزرا، کسی جگہ سے پتھراؤ یا مظاہروں کی کوئی شکایت نہیں موصول ہوئی اور عوام اس فیصلے پر مطمئن ہیں۔ میں دوسرا عالمی چینل گھماتی ہوں تو اس پر شہر کے مرکزی علاقے میں مظاہروں کی فوٹیج دیکھتی ہوں، اتنی فوج کی موجودگی پر ان مظاہرین کی ہمت کی داد دیتی ہوں۔ 

باہر سڑک پر فوجی گاڑیوں کی مزید پیش رفت ہو رہی ہے مگرہماری گلی پھر سنسان نظر آ رہی ہے۔ 

چند کتے سو رہے ہیں جو رات کو بھونکتے رہتے ہیں۔ کتوں کی آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے اور آئے دن انسانوں کو کاٹتے رہتے ہیں۔

میرے دل میں عجیب بے چینی ہے کہ دودھ ختم ہونے کے بعد چائے کیسے بناؤں جو میرے لیے آکسیجن کے مترادف ہے۔

میرا ملازم کچن سے آواز دیتا ہے کہ ’دودھ ختم ہو گیا، اب کل تک انتظار کرنا ہو گا شاید گلی کی نکڑ والی دوکان اندر سے کھلی ہو۔‘

لگتا ہے چائے کی لائف لائن بھی آخری سانس پر ہے۔

اے اللہ یہ کیسا امتحان لے رہے ہو، ہم تو ویسے بہت کم غذا پر زندہ رہنے والے لوگ ہیں اب چائے بھی بند کر رہے ہو؟

میں نے طارق علی کی کتاب The Islam Quintet کا پہلا حصہ Shadows of the Pomegranate Tree پڑھنے کی کوشش کی، میں نہ جانے کہاں کھو گئی۔ اُف یہ کتاب میرے وطن کی بھی آئینہ دار ہے کیا یہ مجھے میرے مستقبل کے لیے تیار کر رہی ہے۔

میں سوچ رہی ہوں کہ پتہ نہیں سرکاری ترجمان نے میرے بارے میں بھی بھارت کے ایک ارب لوگوں کو میری اندرونی کیفیت سے آگاہ کیا ہے یا وہ مجھے زیر کرنے کے لے مزید فوجی کمک منگوا رہے ہیں۔

بارش کا ایک ریلا آیا اور ہر طرف پانی دیکھ رہی ہوں۔ اگر سیلاب آ گیا تو ہمیں کون بچائے گا؟

میں اب سو نہیں سکتی کیونکہ اب میری نظر پانی کی سطح پر ہے جس نے 2014 میں ہمیں بےگھر کر دیا تھا اور اس وقت ہمارے نوجوانوں نے ہمیں اپنی جان پر کھیل کر بچایا تھا آج وہ بھی محصور ہیں!

میری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور ملازم قہوہ لے کر میری حالت پر رحم کھائے جا رہا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی