کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی جانب سے خواتین کے خودکش بم حملوں میں استعمال کے رحجان سے متعلق انڈپینڈنٹ اردو کی تحقیقاتی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچ شدت پسند تنظیمیں پڑھی لکھی خواتین کو متوجہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
حال میں جن دو خواتین کو خودکش حملوں میں استعمال کیا گیا وہ دونوں تعلیم یافتہ تھیں اور ان کی عمریں 25 سے 30 سال کے درمیان تھیں۔
ایک سال سے کچھ زیادہ عرصے کے دوران دو خودکش حملوں میں بی ایل اے نے شاری بلوچ اور سمعیہ قلندرانی بلوچ کو استعمال کیا۔
پہلا حملہ اپریل 2022 میں کراچی میں جب کہ دوسرا جون 2023 میں بلوچستان کے ضلع تربت میں کیا گیا۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ بلوچستان میں کسی خاتون کی جانب سے پہلا خودکش حملہ 2013 میں اس وقت ہوا تھا جب 15 جون کو ایک خاتون بمبار نے سردار بہادر خان یونیورسٹی کے طلبہ کی بس کے قریب خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔
اس حملے میں 14 طالبات جان سے ہاتھ دھو بیٹھی تھیں لیکن بعد میں آنے والی اطلاعات اور ایک فرقہ وارانہ تنظیم کی جانب سے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ قوم پرستی کا واقعہ نہیں بلکہ فرقہ وارانہ حملہ تھا۔
خودکش حملہ آور خواتین کون تھیں؟
شاری بلوچ اور سمعیہ قلندرانی بلوچ دونوں کا تعلق کالعدم عسکری تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) سے تھا۔ شاری درس و تدریس سے وابستہ رہیں، جب کہ سمعیہ قلندرانی عسکری تنظیم کے میڈیا ونگ کے لیے بھی کام کرتی رہی تھیں۔
شاری بلوچ
شاری بلوچ عرف برمش پہلی بلوچ خاتون تھیں جنہوں نے خودکش حملے میں حصہ لیا۔ 30 سالہ شاری نے اپریل 2022 میں یونیورسٹی آف کراچی میں چینی باشندوں پر خودکش حملہ کیا، جس میں تین چینی شہریوں سمیت چار افراد مارے گئے۔
بلوچستان کے ضلع تربت سے تعلق رکھنے والی شاری شادی شدہ اور دو بچوں، آٹھ سالہ ماہ روش اور چار سالہ میر حسن، کی والدہ تھیں۔
انہوں نے ماسٹرز ڈگری حاصل کر رکھی تھی اور زوآلوجی میں کراچی یونیورسٹی سے ایم فل کرنا چاہتی تھیں، جبکہ پیشے کے اعتبار سے وہ استاد تھیں۔
وہ گرلز ہائی سکول کلاتک میں میٹرک کی طالبات کو سائنس پڑھاتی رہی تھیں۔
شاری زمانہ طالب علمی سے ہی بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے بلوچ قوم پرست سیاست کا حصہ رہیں۔
ان کا تعلق ایک پڑھے لکھے بلوچ خاندان سے تھا، اس لیے خودکش حملے کے بعد ان کے خاندان کے ابتدائی ردعمل میں تعجب کا اظہار کیا گیا۔
سمعیہ قلندرانی بلوچ
25 سالہ سمعیہ قلندرانی کا تعلق بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے توتک سے تھا۔ انہوں نے 24 جون، 2023 کو تربت میں خودکش حملے میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔
سمعیہ تعلیم یافتہ اور صحافت کے شعبے سے منسلک تھیں۔ وہ بی ایل اے کے بانی اسلم بلوچ کی بہو تھیں۔
توتک سے 18 فروری، 2011 کو آپریشن کے دوران مبینہ طور پر سمعیہ کے دادا، چچا اور متعدد رشتہ دار لاپتہ ہو گئے تھے۔
بی ایل اے کے مطابق سمعیہ پانچ سال تک ان کے میڈیا کے لیے بھی کام کرتی رہیں۔
خود کش حملہ کرنے والی دونوں خواتین نوجوان تھیں اور حملوں کے بعد ٹوئٹر پر ان کے نام سے ٹرینڈ چلتا رہا۔
دونوں کے آخری پیغامات میں کیا مشترک تھا؟
دونوں خودکش حملہ آوروں نے اپنے آخری پیغامات میں کہا کہ وہ بلوچ جنگجوؤں کے ساتھ مل کر لڑنا چاہتی تھیں اور دونوں نے الگ الگ پیغامات میں بلوچستان میں احساس محرومی کے تاثر کا حوالہ دیا۔
شاری کے خاندان کے کسی فرد کو بلوچستان میں کسی معاملے میں گرفتار یا اٹھایا تو نہیں گیا تھا البتہ سمعیہ کے خاندان کے کچھ لوگ مبینہ طور پر صوبے میں عسکریت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں لاپتہ ہوئے۔
بی ایل اے خواتین کو کیوں اپنی صفوں میں شامل کر رہی ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب بی ایل اے کے سامنے یہ سوال رکھا گیا تو تنظیم کے ذرائع نے کہا کہ ’بلوچ تحریک میں مرد و خواتین کو برابری حاصل ہے۔ یہ سوال کہ بی ایل اے بلوچ خواتین کو کیوں استعمال کرتی ہے، اپنی اساس میں درست سوال نہیں اور صنفی تفریق کے قدامت پسند خیالات پر مبنی ہے۔‘
بی ایل اے کے مطابق: ’بی ایل اے خواتین کو استعمال نہیں کر رہی بلکہ بلوچ خواتین قیادت سے لے کر سپاہی تک بی ایل اے کا اتنا ہی حصہ ہیں جتنا کہ مرد۔‘
بی ایل اے ہے کیا؟
بلوچ لبریشن آرمی 1970 کی دہائی میں بنی اور اس عسکری تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ علاقائی خودمختاری کے لیے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
حکومت کی طرف سے بارہا کوشش کی جاتی رہی کہ بی ایل اے اور دیگر بلوچ عسکری تنظیموں سے مذاکرات کر کے انہیں قومی دھارے میں شامل کیا جائے لیکن اس میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔
بلوچستان میں مسائل ہیں کیا؟
قدرتی وسائل سے مالا مال پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کی شکایت رہی ہے کہ صوبے کی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے ریاست کی طرف سے اقدامات نہیں کیے گئے جس سے وہاں بسنے والوں میں احساسی محرومی بڑھا ہے، جب کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال کے بارے میں بھی ہمیشہ سوالیہ نشان اٹھتا رہا ہے۔
پاکستان میں وفاقی سطح پر قائم ہونے والی حکومتیں یہ کہتی آئی ہیں کہ بلوچ عوام کے احساس محرومی کو دور کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں اور اس ضمن میں پارلیمنٹ کی سطح پر کمیٹیاں بھی تشکیل دی جاتی رہیں، جنہوں نے صوبے کے مسائل کے حل کے لیے اپنی سفارشات تجویز کیں اور ان پر کچھ کام بھی ہوا لیکن بلوچ قوم پرست تنظیموں کے تحفظات دور نہ ہو سکے۔
بلوچ خواتین کیوں خودکش بن رہی ہیں؟
سینیئرصحافی اور تجزیہ کار زاہد حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بلوچستان کا مسئلہ بہت پرانا ہے جو گھبمیر ہوتا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کے حملوں میں تیزی کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں سے ایک بنیادی وجہ نوجوانوں کی ریاست سے بیگانگی کی سوچ اور مایوسی یا غصے کا اظہار نظر آتا ہے۔
’لاپتہ افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، جس سے لگتا ہے کہ ریاست کی جانب سے کوشش یہ تھی کہ طاقت کے استعمال سے اس مسئلے کا حل نکالا جائے، لیکن اب تک جو سمجھ میں آتا ہے کہ اس کے پیچھے جو سیاسی وجوہات تھیں ان پر توجہ نہیں دی گئی اور خصوصاً جو خواتین کی شرکت ہے مجھے یہ مایوسی کی علامت لگتی ہے۔‘
زاہد حسین کہتے ہیں کہ کئی سالوں سے بلوچ خواتین اور بچے ملک کے بڑے شہروں کراچی اور اسلام آباد میں جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کرتے نظر آتے رہے ہیں۔
’یہ جو خودکش حملوں کا رجحان ہے تو یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اصل وجہ نا امیدی کی فضا ہے، بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ان کے لاپتہ لوگوں کی سالوں سے خبر نہیں کہ ان کے بندے کہاں اور کس حال میں ہیں، یا کبھی کبھی لاشیں مل جاتی ہیں، ان کی زندگی کا علم نہیں ہے، تو یہ وجوہات زیادہ گہری ہیں۔‘
زاہد حسین کا کہنا ہے کہ ایسی تحریکوں کے دوسرے ممالک بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی کے خلاف کوئی شکایت ہو تو بہتر یہی ہو گا کہ اس کے خلاف قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کارروائی کی جائے۔
’خواتین کے خود کش حملوں کا رجحان اس حوالے سے بھی تشویش ناک ہے کہ اس سے پہلے بلوچ خود کش حملے نہیں کرتے رہے اور یہ خطرناک رجحان ضرور ہے۔‘
اس مسئلے سے نمٹنا کس طرح ممکن ہے؟
زاہد حسین کہتے ہیں کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ماورائے قانون کارروائیوں کو فوراً بند کیا جائے اور سیاسی مسائل کے حل پر غور کیا جائے۔
’کیوں کہ بلوچ عوام کے اپنے بہت زیادہ مسائل ہیں، یہ تحریک ان علاقوں میں تیز ہوئی ہے جہاں اس سے پہلے ایسا کچھ نہیں تھا۔ ان میں اکثریت پڑھے لکھے لوگوں کی رہی ہے، کچھ جذبات میں بھی آجاتے ہیں، کچھ کو باہر سے بھی استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اصل وجوہات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، جس کے لیے سیاسی طریقہ استعمال کرکے جو بیگانگی کی سوچ ہے اس کو ختم کرناچاہیے، ایسی فضا قائم کرنا چاہیے جس سے ان کا اعتماد بحال ہو۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ناراض بلوچوں سے بات چیت کے لیے ضروری ہے کہ اعتماد کی فضا پیدا کی جائے اور لاپتہ افراد کے خاندانوں کو ان کے اپنوں کے بارے میں بتایا جائے۔
اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ معاشی مسائل کے حل پر بھی توجہ مرکوز کی جانا چاہیے۔ ’جیسے سی پیک بن رہا ہے اور اگر گوادر کے لوگوں کو حقوق نہیں ملتے ہیں تو اس سے بے چینی تو بڑھے گی۔‘
زاہد حسین کہتے ہیں کہ اگر حکومت کی طرف سے مسائل کو سیاسی طور پر حل کرنے کی کوشش کی جائے تو شدت پسندی اور خواتین خودکش حملوں کے رجحانات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
مسلح کارروائیوں میں خواتین کا کردار
ایک غیر سرکاری ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا کا کہنا ہے کہ ’چونکہ بلوچستان میں ریاست مخالف جذبات زیادہ ہیں اس وجہ سے اب خواتین بھی مسلح جدوجہد کا حصہ بن رہی ہیں۔‘
عامر کے مطابق ’خواتین کی طرف سے خود کش حملے نئی بات نہیں کیوں کہ دنیا میں قوم پرست تحریکوں کا زیادہ رجحان بائیں بازو کی طرف رہا ہے، یہی صورت حال بلوچستان کی ہے، یہاں پر بھی لڑنے والوں کا رجحان اسی طرف ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے معاشرے میں چونکہ خواتین کی مردوں کی نسبت کم چیکنگ (یا تلاشی) کی جاتی ہے، اس لیے بعض اوقات تربت جیسے واقعات پیش آتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ تربت حملے کے بعد کالعدم تنظیم بی ایل اے کی طرف سے خودکش حملہ آور کی تصویر بھی جاری ہوئی اور ایک ویڈیو میں دعوی کیا گیا کہ تنظیم کے پاس مزید خواتین عسکریت پسند بھی موجود ہیں، ’اس بنا پر یہ صورت حال خطرناک ہے۔‘
حکومت بلوچستان کا موقف
بلوچستان میں خودکش حملوں میں خواتین کی شمولیت کتنی خطرناک ہے، اس حوالے سے بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا لانگو سے جب سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’خواتین کا خودکش حملوں شامل ہونا ہماری روایات پر حملہ ہے، جو ایک بڑا مسئلہ ہے۔‘
صوبائی وزیر داخلہ میر ضیا لانگو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’خود کش حملوں میں خواتین کو شامل کرنے سے ہماری روایات کی پامالی ہو رہی ہے، جو زیادہ خطرناک مسئلہ ہے۔‘
میر ضیا لانگو کہتے ہیں کہ شدت پسندی میں ’ہماری نادان اور معصوم خواتین کا استعمال کیا جا رہا ہے۔‘
بلوچستان میں دہشت گردی کی لہر میں تیزی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں میر ضیا لانگو نے کہا کہ ’یہ محض مقامی سطح پر امن و امان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ عالمی سطح کا مسئلہ ہے۔‘
بلوچستان کے ضلع تربت میں 24 جون کو سکیورٹی فورسز کو خودکش حملے میں نشانہ بنائے جانے کے واقعہ کے بعد حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے؟ اس سوال پر بلوچستان کے صوبائی وزیر داخلہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ عوام کے تحفظ کے لیے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنا حکومت ذمہ داری ہے۔
’جس میں کوئی غفلت نہیں ہو گی، دہشت گردی کے خلاف انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ہم خواتین کو حراست میں لیتے ہیں تو بلوچی روایات کا نام نہ لیا جائے، یہ اقدام عوام کی جان کی حفاظت کے لیے کیے جاتے ہیں۔‘
عسکریت پسندوں کی ممکنہ نقل و حرکت کو روکنے کے لیے اقدامات سے متعلق صوبائی وزیر داخلہ نے بتایا کہ ایران اور افغانستان کے ساتھ سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے سرحد پر باڑ بھی لگائی گئی ہے تاکہ غیر قانونی آمد و رفت کو روکا جا سکے۔
مذاکرات کی اہمیت
بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا لانگو نے گذشتہ ماہ ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ریاست بات چیت سے مسائل کے حل پر یقین رکھتی ہے۔
’بات چیت آخری آپشن ہے، جس کو حقوق نہیں ملتے وہ پاکستان کے آئین و قانون کے تحت حقوق مانگے، لیکن وہ لوگ جو ریاست کی بنیادوں سےکھیلیں گے ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہو گی، کوئی بات چیت کرنا چاہتا ہے تو ہم تیار ہیں۔‘