بلوچستان میں ٹی ٹی پی کی ’نئی ولایت‘ کیا کسی بڑے خطرے کی علامت ہے؟

شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں اپنی تنظیم کو وسعت دینے کا اعلان کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ ایسا تنظیم کی بڑھتی ہوئی قوت کے باعث کیا جا رہا ہے۔

اعلان کے مطابق ٹی ٹی پی نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ولایت قلات و مکران کے نام سے ایک نئی ولایت کا اضافہ کیا ہے جس کی سربراہی شاہین بلوچ کو سونپی گئی ہے(اے ایف پی فائل)

کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں اپنی تنظیم کو وسعت دینے کا اعلان کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ ایسا تنظیم کی بڑھتی ہوئی قوت کے باعث کیا جا رہا ہے۔

تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان محمد خراسانی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’تحریک کی بڑھتی ہوئی قوت کے پیش نظر رہبری شوریٰ کے اجلاس میں تحریک کو مزید وسعت دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔

اعلان کے مطابق ٹی ٹی پی نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ولایت قلات و مکران کے نام سے ایک نئی ولایت کا اضافہ کیا ہے جس کی سربراہی شاہین بلوچ کو سونپی گئی ہے۔

کالعدم تحریک طالبان کے اس اعلامیے اور نئی ولایت کا مطلب کیا ہے اوریہ بلوچستان کے حالات کے حوالے سے کتنی اہمیت کا حامل ہے؟

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے منیجنگ ڈائریکٹر اور تجزیہ کارعبداللہ خان جو شدت پسندی کے معاملات پر گہری نگاہ رکھتے ہیں انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ بلوچستان میں ٹی ٹی پی کی دوسری ولایت ہے۔ اس سے پہلے ژوب ولایت سربکف مہمند کی سربراہی میں کام کر رہی تھی۔ یہ کافی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ ٹی ٹی پی پاکستان کی سب سے بڑی جنگجو تنظیم ہے۔‘

عبداللہ خان سمجھتے ہیں کہ ’ٹی ٹی پی کاباقاعدہ تنظیمی ڈھانچہ پاکستان کے لیے ایک بڑے خطرے کا موجب بن سکتا ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’بلوچستان میں ٹی ٹی پی پشتون علاقوں میں تو پہلے سے ہی کافی مضبوط رہی ہے اور کئی ہائی پروفائل حملے کیے ہیں جن میں کوئٹہ سول ہسپتال میں وکلا پر ہونے والا خود کش حملہ شامل ہے جس میں 70 سے زائد وکیل جان سے گئے تھے۔ اس کے علاوہ اس گروپ نے بہت سے خود کش حملے کیے۔ تاہم غیر پشتون علاقوں میں ٹی ٹی پی کا اثرورسوخ اتنا زیادہ نہیں تھا، اب اسے کافی بڑی تعداد میں بلوچ جنگجو مل گئے ہیں اور اسے افغان طالبان کے قندہاری گروپ کی بھی سپورٹ حاصل ہے۔‘

عبداللہ خان کا مزید کہنا تھا کہ ’بی ایل اے کے ساتھ آپریشنل اشتراک تو پہلے سے ہی چل رہا ہے۔ اس لیے مستقل میں اس علاقے میں ٹی ٹی پی کے پھیلنے کے لیے زیادہ سازگار ماحول موجود ہے۔ بلوچستان کے وہ جنگجو جو طالبان کے ساتھ مل کر مغربی افواج کے ساتھ لڑتے رہے اور اب انہیں ’جہاد‘ کے لیے کسی دوسری منزل کی تلاش تھی، ریاستی اداروں نے ان بلوچ جنگجوؤں پر خاص توجہ نہیں رکھی، اب یہ ٹی ٹی پی کا حصہ بن رہے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’بلوچ مسلح تنظیموں اور ٹی ٹی پی کے درمیان روابط خفیہ طریقے سے تقریباً دس سال سے چلے آ رہے ہیں۔ غالباً گذشتہ سال زیارت میں جو کرنل اغوا ہوا تھا اس میں بھی ٹی ٹی پی نے کردار ادا کیا تھا۔‘

پاکستان اور افغانستان میں شدت پسندی پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے خراسان ڈائری کے ڈائریکٹرنیوز احسان اللہ ٹیپو محسود کا کہنا ہے کہ ’یہ لگ رہا ہے کہ ٹی ٹی پی کی کوشش ہے کہ بلوچستان میں جگہ بنائے اوراپنے قدم مضبوط کرے۔‘

احسان اللہ ٹیپو محسود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم دیکھ رہے ہیں کہ سال ڈیڑھ سال سے ٹی ٹی پی بلوچستان کے مسائل اور جوبلوچ تنازع ہے، اس پران کے بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ ان کے آڈیو ویڈیوزاورتحریری بیانات ہیں، سوشل میڈٰیا کے ٹی ٹی پی سے منسلک جو اکاونٹس ہیں، وہاں پر یہ بلوچستان کے مسائل اٹھا رہے ہیں، جس سے لگ رہا تھا کہ وہ یہاں کچھ کرنے جا رہے ہیں۔ ‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں لگ بھی رہا تھا کہ ان کی کوشش ہے، بلوچستان میں جگہ بنائیں۔ بلوچستان کے پشتون اکثریتی علاقوں میں یہ پہلے سے موجود تھے۔ ماضی میں بھی اوراب بھی ہیں البتہ جو بلوچ علاقے ہیں وہاں پران کی موجودگی نہیں تھی۔ اس کے ساتھ چارجو بلوچ شدت پسند گروپ ہیں، انہوں نے ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی ہے، جن کا تعلق قلات، مکران، چاغی ، کوئٹہ سے بھی ہے، ان کے باقاعدہ نام بھی سامنے آئے ہیں۔‘

احسان اللہ کے مطابق ’ان کی طرف سے جو حالیہ اعلامیہ جاری ہوا ہے کہ انہوں نے بلوچستان میں ایک نئی ولایت قلات اور مکران کے نام سے بنا دی ہے۔ جس کا سربراہ بھی ایک بلوچ کو مقرر کیا گیا ہے۔ جن بلوچ تنظیموں نے ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی ہے ہماری اطلاعات کے مطابق یہ ماضی قریب میں افغان طالبان کا حصہ ہوا کرتی تھیں۔ یہ لوگ نیٹو ، امریکی فورسز اور افغان نیشنل آرمی کے خلاف لڑتے تھے۔ وہاں اب جنگ ختم ہو گئی ہے تواب انہوں نے یہاں آ کر ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیارکرلی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’صرف بلوچستان میں نہیں بلکہ خیبرپختونخوا میں بھی کچھ گروپ ہیں جو ماضی میں ٹی ٹی پی کا حصہ نہیں بلکہ افغان طالبان کا حصہ تھے اور جنگ کے خاتمے کے بعد ٹی ٹی پی کا حصہ بنے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ وہ بلوچ علاقوں میں بھی اپنے قدم جمائیں اور خاص طور پر بلوچوں کے مسائل کو اپنے بیانیے اور نئی بھرتیوں کے لیے استعمال کریں۔‘

بلوچ کیوں ٹی ٹی پی کا حصہ بن رہے ہیں ؟

احسان اللہ کے بقول: ’یہ وہ بلوچ ہیں جو پہلے سے جہاد میں شریک رہے ہیں۔ یہ نہیں کہ وہاں صرف قوم پرست اورعلیحدگی پسند ہیں بلکہ ماضی میں ہم نے دیکھا کہ لشکر جھنگوی میں بھی بلوچ شامل تھے۔ داعش خراسان بھی بلوچ تھے۔ اس کے علاوہ افغان طالبان میں بھی بلوچ شامل رہے ہیں یہ پہلی دفعہ نہیں ہو رہا ہے لیکن اب ان بلوچ جہادیوں کے پاس واحد آپشن ٹی ٹی پی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کیوں کہ ٹی ٹی پی بہت منظم ہوچکی ہے اور ان کو افغان طالبان کی مدد بھی حاصل ہے۔ اس لیے اس خطے اور پاکستان میں سب سے بڑی جہادی تنظیم ٹی ٹی پی ہے۔ اس لیے ان کی کوشش ہوگی کہ وہ اس کا حصہ بنیں تاکہ افغانستان میں بھی ان پر دباؤ نہ ہو کیوں کہ اگر یہ داعش کی طرف چلے جاتے ہیں تو افغان طالبان ان کو جگہ نہیں دیں گے بلکہ ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔‘

احسان سمجھتے ہیں کہ ’دوسری صورت میں ٹی ٹی پی کا حصہ ہونے پر افغانستان پناہ کے لیے جانے پر ان کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ اس لیے میرے خیال میں سب سے بڑی وجہ یہی ہے۔ ان کو جگہ چاہیے تھی جو یہ تنظیم ان کو مہیا کرسکتی ہے۔ اس لیے مستقبل میں ان جیسی اگر دوسری تنظیمں بھی بلوچستان میں رہتی ہیں تو وہ بھی اس کا حصہ بن سکتی ہیں۔‘

بلوچستان پر شدت پسند تنظیموں کی توجہ مرکوز کرنے کی وجہ کیا ہے؟

احسان نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ’کسی بھی عسکریت پسند تنظیم کے لیے بلوچستان جیسا صوبے کے محل وقوع کی وجہ سے اس پر ضرور نظر ہو گی کہ وہ اس علاقے میں قدم جمائیں۔ ان حوالوں سے یہ صوبہ ان کے لیے موزوں جگہ ہے۔ اس کے علاوہ یہاں پر جو ریاست کے خلاف خیالات ہیں غصہ ہے، اسے بھی یہ اپنے حق میں استعمال کررہی ہیں۔‘

انہو ں نے مزید بتایا کہ ’اس کے علاوہ ان کا جو بیانیہ ہے کہ ہم تو ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان کا نظام ناکام ہوچکا ہے۔ کمزورقوموں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ یہ صورت حال فاٹا میں بھی رہی جب ٹی ٹی پی بن رہی تھی۔ اب یہ چیز ان کو بلوچستان میں ںظر آ رہی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

احسان کے مطابق ’ٹی ٹی پی صرف پشتونوں پر مشتمل تنظیم نہیں ہے۔ جہادی تنظیموں میں قوم پرستی نہیں ہوتی۔ اب ٹی ٹی پی میں 30 کے قریب گروپ شامل ہو گئے ہیں، جن میں سندھی، پنجابی، بلوچ، گلگکت بلتستان سے بھی لوگ شامل ہیں، اس کے علاوہ کشمیر اور ایبٹ آباد، مانسہرہ کے ہزارہ گروپ بھی شامل ہو گئے ہیں‘

احسان اللہ ٹیپو کا مزید کہنا ہے کہ ’ان عوامل کو دیکھ کر یہی کہہ سکتے ہیں کہ بلوچستان گوریلا جنگ کے لیے مناسب جگہ ہے، دوسری بات ریاست کے خلاف جذبات ان کو بھی اپنے حق میں استعمال کرین گے۔ تیسری چیزوہ یہاں سے پیسہ بھی پیدا کر سکتے ہیں، چاہے وہ ایران کے ساتھ تجارت ہو، افغانستان کے ساتھ ہو یا یہاں کے جو قدرتی وسائل ہیں ان کو استعمال کر کے تو یہ سب کسی بھی جہادی تنظیم کے لیے آئیڈیل موقع فراہم کر رہا ہےتاکہ وہ اپنی موجودگی ظاہر کرے۔‘

کیا بلوچستان میں بڑامحاذ بن سکتا ہے؟

اس سوال کے جواب میں احسان اللہ کا کہنا تھا کہ ’میرےخیال میں بلوچستان بڑا محاذ اس وقت بنے گا جب مستقبل میں جو بلوچ علیحدگی پسند، ذیلی علیحدگی پسند گروہ ہیں، اگر انہوں نےآپس میں اتحاد کر لیا۔ اب بھی ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ کسی نہ کسی سطح پر ان کے درمیان تعاون چل رہا ہے۔‘

’اگر انہوں نےکوئی اتحاد بنا لیا تو یہ حکومت پاکستان کے لیے بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔ کیوں کہ ان کے درمیان بین الاقوامی سطح پر تعلقات ہیں۔ جو ایران، افغانستان اور یورپ کی سطح پر ہیں، جو پاکستان اور بلوچستان کی حکومت کے لیے سنجیدہ مسئلہ بن سکتا ہے۔‘

ٹی ٹی پی کا پنجاب کو دو ولایتوں میں تقسیم کرنے کا اعلان

تحریک طالبان کے عمر میڈیا سے جاری ہونے والے ایک بیان میں صوبہ پنجاب کو بھی دو ولایتوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

بیان کے مطابق شمالی پنجاب کے ہلال غازی جبکہ جنوبی پنجاب کے لیے عمر معاویہ کو گورنر مقرر کیا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان