قندھار جو کہ 90 کی دہائی کے دوسرے نصف میں ملا محمد عمر کے دور حکومت میں اونٹوں کے قافلوں سے بھرا شہر تھا، اب ملا ہیبت اللہ کے دور میں پاؤڈر دودھ اور سپرین بنانے والی فیکٹریوں کے ساتھ قدرے ایک جدید اور محفوظ شہر بن چکا ہے۔
اس ملک کے جنوبی خطے نے بہت سی تبدیلیاں دیکھی ہیں۔ ان میں سب سے اہم شاید یہ ہے کہ ملا ہیبت اللہ چاہتے ہیں کہ قندھار نہ صرف افغانستان میں طالبان کا مرکز اور اہم اڈہ بنے بلکہ آگے چل کر اسے ایک دن افغانستان کا مرکزی دارالحکومت قرار دینے کا امکان بھی ہے۔
قندھار نے گذشتہ چند ماہ میں قطر اور جاپان کے بہت اہم مہمانوں کی میزبانی کی۔ ذبیح اللہ مجاہد اور انعام اللہ سمنگانی نے بھی اپنا میڈیا آفس قندھار منتقل کر دیا اور عالمی برادری کے مطالبات کی مخالفت پہلے سے زیادہ واضح ہو گئی۔
انعام اللہ سمنگانی، جو مہینوں تک کابل میں ریاستی میڈیا سینٹر کے سربراہ تھے، اب قندھار چلے گئے ہیں۔ انہوں نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا: ’کابل سے قندھار تک اپنی پوزیشن کو تبدیل کرنا بہت اہم نہیں ہے۔ ہمارے رہنما جو کچھ کہیں وہ ہونا چاہیے۔ جب انہوں نے مجھے قندھار آنے کا کہا تو میں قندھار آگیا۔‘
اس سے قبل اقوام متحدہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل امینہ محمد نے اس سال جنوری میں قندھار کے ڈپٹی گورنر سے ملاقات کی۔ وہ اس دورے سے قبل کابل میں خواتین کے حقوق کو فروغ دینے اور ان کے تحفظ کے طریقوں پر تبادلہ خیال کر چکی تھیں۔
آج اس شہر میں بازاروں اور سرکاری دفاتر میں خواتین کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ کھیل کے میدانوں میں چوری اور زنا کے جرم میں مردوں کو کوڑے مارے جاتے ہیں اور شہر کا ماحول مکمل طور پر مذہبی بن چکا ہے۔ شہر کے اندر موسیقی کی آواز کبھی سنائی نہیں دیتی اور اگرچہ زیادہ تر رہائشی موجودہ سلامتی اور استحکام پر اطمینان کا اظہار کرتے ہیں، لیکن ایسے نوجوان بھی ہیں جو اب بھی موسیقی کی آواز کو پسند کرتے ہیں اور موجودہ حالات پر تنقید کرتے ہیں۔
طالبان کے رہنما شیخ ہیبت اللہ شاذ و نادر ہی اپنی رہائش گاہ سے نکلتے ہیں۔ طالبان کی امارت اسلامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ ان کا سربراہ کرائے کے مکان میں رہتا ہے اور اس کے پاس سابق حکومت کے رہنماؤں کی طرح محلات نہیں ہیں۔
اگرچہ مجاہد کا کہنا ہے کہ طالبان کے زیادہ تر رہنما اب بھی کابل میں مقیم ہیں اور وہ افغانستان کا سرکاری دارالحکومت ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ سیاسی رسمیت کابل سے قندھار تک پھیلی ہوئی ہے۔ کابل میں ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر واشنگٹن پوسٹ کو بتایا: ’سیاسی کشش ثقل کا مرکز بدل رہا ہے۔ جہاں حکومت کا ترجمان موجود ہے اس کا مطلب ہے کہ حکومت بھی وہاں موجود ہے۔‘
طالبان کے بعض ارکان کے مطابق افغانستان میں حالات کو کنٹرول کرنا قندھار سے آسان ہے اور خود طالبان کو بھی وہاں زیادہ آسانی سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
منصور، ان لوگوں میں سے ایک جو اس وقت افغانستان سے باہر رہتے ہیں اور ماضی میں مقامی حکومت کے عہدے دار تھے، کہتے ہیں کہ کابل میں فکری اور سیاسی تنوع زیادہ ہے اور ان کے مطابق طالبان کے احکامات کی مخالفت کرنے کے لیے زیادہ گنجائش موجود ہے۔ اس شہر کے لوگ زیادہ پڑھے لکھے ہیں اور احکامات پر مختلف ردعمل ظاہر کر سکتے ہیں۔ منصور کا مطلب شاید طالبان رہنما کے حکم کے خلاف احتجاج اور سیاسی محاذ آرائی ہے۔
کابل میں مقیم طالبان کے عہدوں پر قندھار کی حکمرانی مسلط کرنے کی پہلی جھلک مارچ 2022 میں سامنے آئی، جب طالبان کی کابینہ لڑکیوں کی موجودگی کے ساتھ نئے تعلیمی سال کے آغاز کی تیاری کر رہی تھی اور اسی دن اچانک طالبان رہنما نے حکم دیا کہ لڑکیوں کے سکول نہ کھولے جائیں۔ اس طرح سکول جانے والی لڑکیوں کی بڑی تعداد کو سکول سے نکال دیا گیا۔
اس کے بعد طالبان کی کابینہ کی بیشتر لوگوں کو اس گروپ کے سربراہ کے حکم سے تبدیل کر دیا گیا۔ ایک ایسا مسئلہ جس کے نتیجے میں طالبان حکام کا ردعمل بھی سامنے آیا اور طالبان کے متعدد اعلیٰ عہدے داروں نے اپنے قائد کے اس رویے پر سرکاری طور پر تنقید کی۔ اب طالبان رہنما قندھار سے ان باغی شخصیات کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کابل میں طالبان کے سیاسی رہنماؤں کو وقتاً فوقتاً بعض مسائل پر مشاورت کے لیے قندھار جانا پڑتا ہے۔ وہاں وہ اپنے قائد کے نئے احکامات سے آگاہ ہیں اور ان پر عمل درآمد کے پابند ہیں۔ بلاشبہ ملا ہیبت اللہ صرف حکم دینے تک محدود نہیں ہیں۔ وہ حالیہ دنوں میں اپنے خارجہ تعلقات کو یہیں سے چلاتے رہے اور پہلی بار قندھار میں کسی غیرملکی اہلکار سے ملاقات کی ہے۔
قطر کے وزیر اعظم طالبان رہنما سے ملاقات کرنے والے پہلی غیر ملکی سیاسی شخصیت تھے۔ انہوں نے کابل جانے اور طالبان کے دیگر عہدیداروں سے ملاقات کی کوئی ضرورت نہیں سمجھی اور اسی قندھار میں انہوں نے طالبان کے وزیر اعظم سے بھی ملاقات کی کیونکہ ملا حسن جو بظاہر بیماری اور تھکاوٹ کی وجہ سے رخصت پر تھے قندھار میں اس وقت موجود تھے۔
اگرچہ دارالحکومت کی کابل سے قندھار منتقلی میں مزید وقت درکار ہے، لیکن یہ شہر عملی طور پر پہلے ہی دارالحکومت جیسا بن چکا ہے۔ افغانستان کا سب سے بڑا ہسپتال قندھار میں کھول دیا گیا ہے اور بھارتی ماہرین اور ہزار کارکنوں کی موجودگی کے ساتھ سب سے بڑی دوا ساز فیکٹری قندھار کے صنعتی شہر میں فعال کر دی گئی ہے۔ بازار پہلے سے زیادہ پرہجوم ہو گئے ہیں۔
کابل سے قندھار کے دارالحکومت کے معنی بدلنے کا طالبان رہنما کے لیے ایک اور بڑا فائدہ ہے۔ ایسا کر کے وہ کابینہ میں شامل باغی عہدیداروں کو الگ تھلگ کر دیتے ہیں اور اگر اب سے قندھار میں اہم اور موثر اجلاس ہونے ہیں تو طالبان کابینہ کے پاس اعلان کردہ بجٹ خرچ کرنے اور منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو گا۔
بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعلقات کو بڑھانے میں طالبان رہنما کی دلچسپی کے تناظر میں امریکی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں عالمی برادری کے مفادات کو مدنظر رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ طالبان رہنما سے براہ راست بات چیت کی جائے اور یورپی ممالک نے بھی طالبان کے اعلیٰ ترین عہدیدار سے رابطے کی خواہش چھپائی نہیں۔
---------------------
یہ مضمون پہلی انڈپینڈنٹ فارسی میں شائع ہوا۔