کابل میں بننے والے ’ماحول دوست‘ شمسی چولہے

کابل کے غلام عباس سولر تندور اور چولہے بناتے ہیں۔ عام سولر پلیٹوں کی جگہ ان چولہوں میں شیشے سے روشنی منعطف کر کے آگ جلائی جاتی ہے۔ 

دنیا ایندھن کی کمی کی طرف گامزن ہے، لکڑی کو بطور ایندھن استعمال کرنا اور جلانا  ہی بنیادی طور پر جنگلات کٹنے اور گلوبل وارمنگ کا ایک سبب ہے۔

اس صورت حال میں شمسی توانائی ایک حل ہے جس کی مدد سے ایندھن کی کمی پوری کی جا سکتی ہے۔

کابل کے غلام عباس سولر تندور اور چولہے بناتے ہیں۔ عام سولر پلیٹوں کی جگہ ان چولہوں میں شیشے سے روشنی منعطف کر کے آگ جلائی جاتی ہے۔ 

غلام عباس نے کہا کہ ’یہ چولہا پہلی بار غزنی میں بنتا ہوا میں نے دیکھا تھا، پھر کئی جگہ اور بنتا دیکھا، چونکہ یہی میرا پیشہ تھا تو میں نے پھر خود بنایا، دوستوں اور ہمسایوں نے بھی میری بہت حوصلہ افزائی کی۔

’لوگ میرے بنائے ہوئے چھوٹے سائز کے سولر چولہے بطور خاص پسند کرتے ہیں۔

’اگرچہ کارکردگی بڑے چولہوں کی بہتر ہوتی ہے، مثلاً چار لیٹر والےجو 18 سے 20 منٹ میں پانی کو ابالتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہمارے پاس بجٹ کی کمی ہے اس لیے اس کاروبار کو وسعت نہیں دے سکتے۔‘

غلام عباس کا کہنا تھا کہ ’میرا ارادہ ہے اس مفید کام کو انٹرنیشنل لیول تک لے جاؤں، حالانکہ فی الوقت لوگوں کے مطالبے کے باوجود میں افغانستان کے دوسرے صوبوں تک بھی اپنے کام کو وسعت نہیں دے پایا۔ لوگ میرے چولہوں کو یہاں کابل میں خرید کر اپنےساتھ دوسرے صوبوں کو لے جاتے ہیں۔‘

خام مواد کے بارے میں غلام عباس نے بتایا کہ ’اس کا کچھ سامان تو ہمارے ملک کا بنا ہوا ہے جبکہ لوہے کی پلیٹس پاکستان، چین اور روس سے آتی ہیں۔ اس کا شیشہ بھی چین اور ایران سے آتا ہے۔‘

چولہوں کی قیمت کے بارے میں غلام عباس نے بتایا کہ یہ بازار میں خام مواد پر انحصار کرتا ہے جبکہ بازار میں کسی بھی چیز کی مقرر قیمت نہیں تو ان چولہوں کی قیمتیں بھی مقرر نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات