دسمبر 2022 میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کے شورش زدہ صوبہ بلوچستان کے مکران ڈویژن سے مزار بلوچ کے سربراہی میں ایک عسکریت پسند دھڑے نے ٹی ٹی پی کے مفتی نور ولی محسود سے وفاداری کی بیعت کی ہے۔
بلوچستان میں ٹی ٹی پی کی موجودگی کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں یہ گروپ صوبے کے پشتون علاقوں تک محدود رہا۔
تاہم گروپ کے حالیہ کچھ حملے بلوچ علاقوں میں ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر مکران ڈویژن کو بلوچ علیحدگی پسندوں اور خاص طور پر بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور اس کے تین اضلاع ہیں: گوادر، کیچ اور پنجگور۔
کیچ اور گوادر کے مقابلے میں ضلع پنجگور میں ماضی میں طالبان کے حامی عناصر کی محدود موجودگی رہی جو اب کم ہوگئی ہے۔
ماضی میں پنجگور کے لوگوں کو افغانستان اور کشمیر میں بھی نام نہاد ’جہاد‘ کے لیے بھرتی کیا جاتا رہا ہے۔
ٹی ٹی پی کی بلوچستان میں قدم
ٹی ٹی پی کی تنظیمی تنظیم نو کی کچھ جھلکیاں برقرار رکھنا ایک لازمی امر بن گیا ہے۔ یا گروپ یہ ظاہر کرنے کا خواہاں ہے کہ یہ بلوچستان کے پشتون اور بلوچ دونوں علاقوں میں موجود ہے۔
بلوچستان میں دو عسکریت پسند گروپوں سے وفاداری کا حلف لینے کے علاوہ ٹی ٹی پی بلوچستان میں لوگوں کو درپیش مختلف معاملات پر مسلسل بیانات شائع کرتی رہی ہے جیسے جبری گمشدگیاں، ڈیرہ بگٹی میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے موت کے منہ میں جانے والے افراد کے ساتھ یک جہتی کے بیانات، جولائی 2022 میں زیارت میں فوجی آپریشن کے دوران نو بلوچوں کے مارے جانے کے ساتھ ساتھ اپریل 2022 میں چاغی ضلعے میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ایک ڈرائیور کی موت اور اسی مہینے کے دوران ٹی ٹی پی نے اردو سب ٹائٹلز کے ساتھ بلوچی زبان میں ایک نظم بھی جاری کی جس میں بلوچستان کو درپیش مختلف مسائل کی فوٹیج دکھائی گئی۔
فروری میں ٹی ٹی پی نے سانحہ بارکھان پر ایک بلوچ جاگیردار عبدالرحمان کھیتران کی نجی جیل میں قید ماں اور ان کے دو بیٹوں کو بے دردی سے قتل کرنے کے حوالے سے بیان جاری کیا۔ یوں ٹی ٹی پی نے عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے مظلومیت کے اس بیانیے کو کیش کرنا چاہا۔
ایسا کرنے سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستانی ریاست کے خلاف ایک مشترکہ محاذ بنانے کے لیے بلوچ علیحدگی پسندوں کی طرف دیکھ رہی ہے۔
جنوری کے ایک انٹرویو میں ٹی ٹی پی رہنما نور ولی محسود نے بلوچ علیحدگی پسندوں کو ’بھائی‘ قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ وسائل کی کمی کے سبب وہ ان گروپ کی مدد نہیں کر سکتے۔
ٹی ٹی پی کی بلوچستان میں موجودگی پر بلوچ علیحدگی پسندوں کا ردعمل
اگرچہ بلوچ علیحدگی پسند ٹی ٹی پی کے ساتھ کسی بھی قسم کے روابط سے انکار کرتے رہے ہیں لیکن ان کی ٹی ٹی پی کی موجودگی پر خاموشی کی تین ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں۔
دوسرا بلوچ مزاحمت کار ایک اور محاذ کس کے خلاف نہیں کھولنا چاہتے اور ریاست سے لڑنے پر توجہ مرکوز رکھیں ہیں۔
تیسرا، خاموش رہ کر بلوچ مزاحمت کاروں نے خاموشی سے ٹی ٹی پی کو بلوچستان میں خوش آمدید کہا۔
بلوچ علیحدگی پسندوں نے ٹی ٹی پی سے خودکش حملوں کے طریقے کو اپنایا۔ مزید برآں اس کے باوجود کہ بلوچ علیحدگی پسند سیکولر ہیں اور ٹی ٹی پی مذہبی طور پر متحرک ہے وہ ایک دوسرے پر تنقید نہیں کرتے۔
درحقیقت ٹی ٹی پی بلوچ علیحدگی پسندوں کو ریاست کے خلاف اکٹھے ہونے کے لیے پیشکش جاری رکھے ہوئے ہے۔ نچلے درجے کے بلوچ عسکریت پسندوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے ٹی ٹی پی ریاستی حمایت یافتہ ڈیتھ سکواڈز سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملے کر رہی ہے جو صوبے میں بلوچوں کی متنازع ’مارو اور پھینک دو‘ کی پالیسی میں ملوث رہے ہیں۔
بلوچستان میں ٹی ٹی پی کی مداخلت کو برداشت کرنے کیے لیے ایک اور جہت داعش پاکستان کی موجودگی سے منسلک ہو سکتی ہے۔
ٹی ٹی پی اور آئی ایس پی پی اس وقت سے ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ اسی طرح ٹی ٹی پی کی موجودگی بلوچستان میں آئی ایس پی پی کے اثر و رسوخ کو کمزور کرتی ہے تو یہ بلوچ علیحدگی پسندوں کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا۔
ٹی ٹی پی کی بلوچستان میں دلچسپی
آئی ایس پی پی کے ظہور سے پہلے لشکر جھنگوی (ایل ای جے) اور جند اللہ جیسے شیعہ مخالف عسکریت پسند گروہوں کا بلوچستان کے ’جہادی‘ منظر نامے پر غلبہ رہا ہے۔
عسکری کارروائیوں میں بلوچستان سے ایل ای جے کے خاتمے اور اس کے کچھ دھڑوں کی آئی ایس پی پی میں انضمام بظاہر ٹی ٹی پی کا جیش العدل کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ اور دیگر ہم خیال گروہوں کی مدد سے آئی ایس پی پی سے بلوچستان میں ’جہادی‘ جگہ دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے۔
دوسرا، یہ کہ بلوچستان میں ٹی ٹی پی کے لیے پروپیگنڈے کا یہ ایک اہم موقع ہے۔ چوں کہ گروپ نے بلوچستان کو اپنے نام نہاد ژوب ولایت میں شامل کیا ہے اس لیے صوبے میں موجودگی کی کچھ جھلکیاں اور بلوچ عوام کی شکایات کو ظاہر کرنے والے بیانات جاری کرنا آپٹکس کے ساتھ ساتھ بھرتی کے لیے بلوچ نوجوانوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے بھی یہ اہم ہیں۔
مقامی گروہوں کی طرف سے حملے، ہمدردانہ بیانات اور وقفے وقفے سے وفاداری کے وعدے ٹی ٹی پی کے بلوچستان میں موجودگی کے دیگر کمزور دعووں کو جواز فراہم کررہے ہیں۔
تیسرا، بلوچستان میں قدم جمانے سے ٹی ٹی پی کو پاکستان میں بھی ایک متبادل پناہ گاہ مل سکتی ہے۔
یہ اقدامات ٹی ٹی پی کے لیے ایک مفید انشورنس پالیسی ہو سکتی ہے۔ اس وقت ٹی ٹی پی کی اعلیٰ قیادت افغانستان میں طالبان کی چھتری تلے کام کر رہی ہے۔
اگر افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پناہ دینے کی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہیں تو یہ گروپ اپنے کچھ جنگجوؤں اور منقولہ اثاثوں کو بلوچستان منتقل کر سکتا ہے جو آبادی میں کم اور معدنی ذخائر کے ساتھ پاکستان کے رقبے کا 44 فیصد ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹی ٹی پی بلوچ عسکریت پسندوں کے نچلے کیڈرز کی وفاداریاں جیتنے کے لیے مسلسل ہمدردانہ بیانات جاری کر رہی ہے۔
1۔ یہ ذکر کرنا کہ دو عسکریت پسند گروپ جو بلوچستان سے ٹی ٹی پی میں شامل ہوئے ہیں وہ بلوچ علیحدگی پسند نہیں ہیں۔