ٹی ٹی پی کی بلوچستان میں مداخلت تنظیمی توسیع یا پروپیگنڈا؟

ٹی ٹی پی کا بلوچستان میں گھسنا محض پروپیگنڈا سٹنٹ نہیں بلکہ یہ ایک طرف پاکستان میں غیر متناسب تنازعات کی بدلتی ہوئی نوعیت اور دوسری طرف گروپ کی تنظیمی توسیع اور تنظیم نو کی نمائندگی کرتا ہے۔

بلوچستان میں ٹی ٹی پی کی موجودگی کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں یہ گروپ صوبے کے پشتون علاقوں تک محدود رہا (اے ایف پی فائل فوٹو) 

دسمبر 2022 میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کے شورش زدہ صوبہ بلوچستان کے مکران ڈویژن سے مزار بلوچ کے سربراہی میں ایک عسکریت پسند دھڑے نے ٹی ٹی پی کے مفتی نور ولی محسود سے وفاداری کی بیعت کی ہے۔ 

اس سے پہلے ملا اسلم بلوچ کی قیادت میں ایک اور عسکریت پسند دھڑا بھی جون میں بلوچستان کے ضلع نوشکی سے ٹی ٹی پی میں شامل ہوچکا ہے۔ 
 
بلوچستان پہلے ہی بلوچ قوم پرست گروہوں کی بغاوت کی زد میں ہے لہٰذا ٹی ٹی پی کی بلوچستان میں موجودگی صوبے کے تنازعے پر ممکنہ طویل مدتی اثرات مرتب کرسکتی ہے۔

بلوچستان میں ٹی ٹی پی کی موجودگی کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں یہ گروپ صوبے کے پشتون علاقوں تک محدود رہا۔ 

تاہم گروپ کے حالیہ کچھ حملے بلوچ علاقوں میں ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر مکران ڈویژن کو بلوچ علیحدگی پسندوں اور خاص طور پر بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور اس کے تین اضلاع ہیں: گوادر، کیچ اور پنجگور۔  

کیچ اور گوادر کے مقابلے میں ضلع پنجگور میں ماضی میں طالبان کے حامی عناصر کی محدود موجودگی رہی جو اب کم ہوگئی ہے۔

اسی طرح ایرانی بلوچستان کے سنی بلوچ عسکریت پسند گروپس جیسے جیش العدل بھی پنجگور میں موجود رہے ہیں۔ پنجگور میں دیوبندی مدارس کی ایک بڑی تعداد بھی ہے۔

ماضی میں پنجگور کے لوگوں کو افغانستان اور کشمیر میں بھی نام نہاد ’جہاد‘ کے لیے بھرتی کیا جاتا رہا ہے۔

ٹی ٹی پی کی بلوچستان میں قدم

ٹی ٹی پی کی بلوچستان میں دل چسپی موقع پرستی نہیں بلکہ تنظیمی ڈھانچے میں تبدیلی کے سبب ٹی ٹی پی نے بلوچستان کو اپنے نام نہاد ژوب ولایت (صوبہ) کے ماتحت رکھا ہے جس کی قیادت مولوی نور اللہ کر رہے ہے۔  

ٹی ٹی پی کی تنظیمی تنظیم نو کی کچھ جھلکیاں برقرار رکھنا ایک لازمی امر بن گیا ہے۔ یا گروپ یہ ظاہر کرنے کا خواہاں ہے کہ یہ بلوچستان کے پشتون اور بلوچ دونوں علاقوں میں موجود ہے۔

بلوچستان میں دو عسکریت پسند گروپوں سے وفاداری کا حلف لینے کے علاوہ ٹی ٹی پی بلوچستان میں لوگوں کو درپیش مختلف معاملات پر مسلسل بیانات شائع کرتی رہی ہے جیسے جبری گمشدگیاں، ڈیرہ بگٹی میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے موت کے منہ میں جانے والے افراد کے ساتھ یک جہتی کے بیانات، جولائی 2022 میں زیارت میں فوجی آپریشن کے دوران نو بلوچوں کے مارے جانے کے ساتھ ساتھ اپریل 2022 میں چاغی ضلعے میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ایک ڈرائیور کی موت اور اسی مہینے کے دوران ٹی ٹی پی نے اردو سب ٹائٹلز کے ساتھ بلوچی زبان میں ایک نظم بھی جاری کی جس میں بلوچستان کو درپیش مختلف مسائل کی فوٹیج دکھائی گئی۔

فروری میں ٹی ٹی پی نے سانحہ بارکھان پر ایک بلوچ جاگیردار عبدالرحمان کھیتران کی نجی جیل میں قید ماں اور ان کے دو بیٹوں کو بے دردی سے قتل کرنے کے حوالے سے بیان جاری کیا۔ یوں ٹی ٹی پی نے عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے مظلومیت کے اس بیانیے کو کیش کرنا چاہا۔

اسی طرح ٹی ٹی پی کے پرچم بردار اردو زبان کے پروپیگنڈا میگزین مجلہ تحریک طالبان پاکستان کے مارچ کے شمارے میں اس کے سابق نائب رہنما شیخ خالد حقانی کا ایک مضمون شائع کیا گیا جس کا نام تھا ’بلوچستان کے مظلوم عوام کے لیے ایک پیغام‘

ایسا کرنے سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستانی ریاست کے خلاف ایک مشترکہ محاذ بنانے کے لیے بلوچ علیحدگی پسندوں کی طرف دیکھ رہی ہے۔  

جنوری کے ایک انٹرویو میں ٹی ٹی پی رہنما نور ولی محسود نے بلوچ علیحدگی پسندوں کو ’بھائی‘ قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ وسائل کی کمی کے سبب وہ ان گروپ کی مدد نہیں کر سکتے۔

ٹی ٹی پی نے وقفے وقفے سے بلوچستان میں حملے کیے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے داخلے اور بلوچ حامی بیانات محض پروپیگنڈے کے لیے بیان بازی نہیں۔
 
مثال کے طور پر پاکستانی ریاست کے ساتھ جون 2022 کی جنگ بندی ختم کرنے کے بعد ٹی ٹی پی نے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پولیو ویکسینیشن ٹیم کی حفاظت کرنے والے پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔  
 
اسی طرح اس گروپ نے دسمبر میں افغانستان کی سرحد کے قریب ضلع چمن میں چھ سیکورٹی اہلکاروں کو قتل کرنے کا دعوی کیا۔

ٹی ٹی پی کی بلوچستان میں موجودگی پر بلوچ علیحدگی پسندوں کا ردعمل

اگرچہ بلوچ علیحدگی پسند ٹی ٹی پی کے ساتھ کسی بھی قسم کے روابط سے انکار کرتے رہے ہیں لیکن ان کی ٹی ٹی پی کی موجودگی پر خاموشی کی تین ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں۔

سب سے پہلے وقفے وقفے سے ہونے والے حملوں اور پروپیگنڈے کے بیانات کے باوجود بلوچستان میں ٹی ٹی پی کی موجودگی قابل اعتراض طور پر علامتی ہے اور بلوچ باغی ٹی ٹی پی کو چیلنج کی بجائے ایک پریشانی کے طور پر دیکھتے ہیں۔

دوسرا بلوچ مزاحمت کار ایک اور محاذ کس کے خلاف نہیں کھولنا چاہتے اور ریاست سے لڑنے پر توجہ مرکوز رکھیں ہیں۔

تیسرا، خاموش رہ کر بلوچ مزاحمت کاروں نے خاموشی سے ٹی ٹی پی کو بلوچستان میں خوش آمدید کہا۔

اس کے باوجود کہ ٹی ٹی پی اور بلوچ مزاحمت کاروں کے درمیان تنظیمی گٹھ جوڑ موجود نہیں لیکن انفرادی سطح پر حکمت عملی کے تعاون کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
 
اطلاعات کے مطابق، یہ ٹیکٹیکل روابط 2015-2020 کے عرصے کے دوران قائم ہوئے جب ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسند دونوں افغانستان میں اپنے اپنے ٹھکانوں میں ایک ساتھ موجود تھے۔  

بلوچ علیحدگی پسندوں نے ٹی ٹی پی سے خودکش حملوں کے طریقے کو اپنایا۔ مزید برآں اس کے باوجود کہ بلوچ علیحدگی پسند سیکولر ہیں اور ٹی ٹی پی مذہبی طور پر متحرک ہے وہ ایک دوسرے پر تنقید نہیں کرتے۔  

درحقیقت ٹی ٹی پی بلوچ علیحدگی پسندوں کو ریاست کے خلاف اکٹھے ہونے کے لیے پیشکش جاری رکھے ہوئے ہے۔ نچلے درجے کے بلوچ عسکریت پسندوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے ٹی ٹی پی ریاستی حمایت یافتہ ڈیتھ سکواڈز سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملے کر رہی ہے جو صوبے میں بلوچوں کی متنازع ’مارو اور پھینک دو‘ کی پالیسی میں ملوث رہے ہیں۔  

بلوچستان میں ٹی ٹی پی کی مداخلت کو برداشت کرنے کیے لیے ایک اور جہت داعش پاکستان کی موجودگی سے منسلک ہو سکتی ہے۔  

ٹی ٹی پی اور آئی ایس پی پی اس وقت سے ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ اسی طرح ٹی ٹی پی کی موجودگی بلوچستان میں آئی ایس پی پی کے اثر و رسوخ کو کمزور کرتی ہے تو یہ بلوچ علیحدگی پسندوں کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا۔

ٹی ٹی پی کی بلوچستان میں دلچسپی

بلوچستان میں ٹی ٹی پی کی دلچسپی کے کئی عوامل ہو سکتے ہیں۔ سب سے پہلے ٹی ٹی پی کا مقصد آئی ایس پی پی سے مقابلہ کرنا ہے اور وہ اس کے لیے بلوچستان کے ’جہادی‘ خلا کو کھلا نہیں چھوڑنا چاہتے۔

آئی ایس پی پی کے ظہور سے پہلے لشکر جھنگوی (ایل ای جے) اور جند اللہ جیسے شیعہ مخالف عسکریت پسند گروہوں کا بلوچستان کے ’جہادی‘ منظر نامے پر غلبہ رہا ہے۔

عسکری کارروائیوں میں بلوچستان سے ایل ای جے کے خاتمے اور اس کے کچھ دھڑوں کی آئی ایس پی پی میں انضمام بظاہر ٹی ٹی پی کا جیش العدل کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ اور دیگر ہم خیال گروہوں کی مدد سے آئی ایس پی پی سے بلوچستان میں ’جہادی‘ جگہ دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے۔

دوسرا، یہ کہ بلوچستان میں ٹی ٹی پی کے لیے پروپیگنڈے کا یہ ایک اہم موقع ہے۔ چوں کہ گروپ نے بلوچستان کو اپنے نام نہاد ژوب ولایت میں شامل کیا ہے اس لیے صوبے میں موجودگی کی کچھ جھلکیاں اور بلوچ عوام کی شکایات کو ظاہر کرنے والے بیانات جاری کرنا آپٹکس کے ساتھ ساتھ بھرتی کے لیے بلوچ نوجوانوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے بھی یہ اہم ہیں۔  

مقامی گروہوں کی طرف سے حملے، ہمدردانہ بیانات اور وقفے وقفے سے وفاداری کے وعدے ٹی ٹی پی کے بلوچستان میں موجودگی کے دیگر کمزور دعووں کو جواز فراہم کررہے ہیں۔

تیسرا، بلوچستان میں قدم جمانے سے ٹی ٹی پی کو پاکستان میں بھی ایک متبادل پناہ گاہ مل سکتی ہے۔ 

یہ اقدامات ٹی ٹی پی کے لیے ایک مفید انشورنس پالیسی ہو سکتی ہے۔ اس وقت ٹی ٹی پی کی اعلیٰ قیادت افغانستان میں طالبان کی چھتری تلے کام کر رہی ہے۔  

اگر افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پناہ دینے کی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہیں تو یہ گروپ اپنے کچھ جنگجوؤں اور منقولہ اثاثوں کو بلوچستان منتقل کر سکتا ہے جو آبادی میں کم اور معدنی ذخائر کے ساتھ پاکستان کے رقبے کا 44 فیصد ہے۔

لہٰذا یہ ناصرف ٹی ٹی پی کو کافی ٹھکانے فراہم کرتا ہے بلکہ وسائل پیدا کرنے کا مواقعے بھی فراہم کرسکتا ہے۔
 
نتیجہ
ٹی ٹی پی کا بلوچستان میں گھسنا محض پروپیگنڈا سٹنٹ نہیں بلکہ یہ ایک طرف پاکستان میں غیر متناسب تنازعات کی بدلتی ہوئی نوعیت اور دوسری طرف گروپ کی تنظیمی توسیع اور تنظیم نو کی نمائندگی کرتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹی ٹی پی بلوچ عسکریت پسندوں کے نچلے کیڈرز کی وفاداریاں جیتنے کے لیے مسلسل ہمدردانہ بیانات جاری کر رہی ہے۔  

صوبے میں ٹی ٹی پی کی موجودگی پر خاموشی بلوچ عسکریت پسندوں کی خاموشی انہیں اپنے ساتھیوں سے محروم کر سکتا ہے جبکہ پرتشدد ردعمل انہیں ٹی ٹی پی کے خلاف محاذ کھولنے پر مجبور کر سکتا ہے، لیکن یہ بعد کے آپشنز پاکستانی ریاست کے فائدے میں ہوں گے۔

1۔ یہ ذکر کرنا کہ دو عسکریت پسند گروپ جو بلوچستان سے ٹی ٹی پی میں شامل ہوئے ہیں وہ بلوچ علیحدگی پسند نہیں ہیں۔

2۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ بلوچ علیحدگی پسند نجی گفتگو میں ٹی ٹی پی کے ساتھ کسی بھی قسم کے روابط کی سختی سے تردید کرتے رہے ہیں۔  
تاہم اوپن سورس واقعات شواہد اس تاثر کو تقویت دیتے ہیں کہ بلوچ علیحدگی پسندوں کے کچھ دھڑوں اور ٹی ٹی پی کے درمیان تعاون کے کچھ شکلیں موجود ہیں۔
 
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ