پاکستان کی داخلی سلامتی اور عسکریت پسندوں کا سوشل میڈیا پروپیگنڈا

کریک ڈاؤن سے بچنے کے لیے ٹی ٹی پی اور داعش خراسان نے بھی اپنے پروپیگنڈا مواد کا ایک بڑا حصہ ڈارک ویب پر منتقل کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے ٹی ٹی پی اور داعش کے سوشل میڈیا مواد کو ہٹانا ایک مشکل کام رہا ہے۔ 

اورکزئی میں 2008 کی اس تصویر میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے رہنما لطیف محسود دیکھے جاسکتے ہیں۔ ڈیجیٹل دور میں پروپیگنڈے نے عسکریت پسند گروہوں کے لیے ایک اضافی اہمیت حاصل کر لی ہے (اے ایف پی)

پروپیگنڈا عسکریت پسند گروہوں کی لائف لائن ہے۔ وہ اس کی خاطر تشدد نہیں کرتے بلکہ اپنے سیاسی، نظریاتی فریم ورک اور اپنے مطالبات کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہیں۔ 

لوئیس رچرڈسن کے مطابق عسکریت پسند تین رویوں کا شکار ہوتے ہیں:

  • بدلہ (حقیقی یا تصوراتی مظالم کے لیے)
  • ردعمل (دہشت گردی کی روک تھام کے لیے اکسانا اور ضرورت سے زیادہ طاقت استعمال کرنا)
  • پبلسٹی (شہرت کا حصول)

ڈیجیٹل دور میں پروپیگنڈے نے عسکریت پسند گروہوں کے لیے ایک اضافی اہمیت حاصل کر لی ہے۔ انہیں اپنے بیانیے کو فروغ دینے، اپنے مخالفین کی تردید اور ذمہ داری کے دعوے کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر موجودگی برقرار رکھنی ہوتی ہے۔

پاکستان کے عسکری منظرنامے میں، داعش خراسان اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کا ہتھیار اچھا خاصا استعمال میں لاتے ہیں۔

فیس بک اور ٹوئٹر جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی طرف سے بڑے پیمانے پر دہشت گردی کی روک تھام اور مصنوعی ذہانت کی جانچ شروع کرنے کے باوجود ٹی ٹی پی اور داعش خراسان نے دونوں پلیٹ فارمز پر اپنی محدود موجودگی برقرار رکھی ہوئی ہے۔ 

کریک ڈاؤن سے بچنے کے لیے ٹی ٹی پی اور داعش خراسان نے بھی اپنے پروپیگنڈا مواد کا ایک بڑا حصہ ڈارک ویب پر منتقل کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے، ٹی ٹی پی اور داعش کے سوشل میڈیا مواد کو ہٹانا ایک مشکل کام رہا ہے۔ 

دونوں گروپوں نے سوشل میڈیا کے بدلتے ہوئے ماحول کے مطابق مسلسل خود کو ڈھال لیا ہے اور زبردست لچک دکھائی ہے۔ وہ اپنے پروپیگنڈے کو زندہ رکھنے اور پھیلانے کے لیے مسلسل نئے، چھوٹے اور غیر معروف لیکن محفوظ انکرپٹڈ پلیٹ فارمز (وٹس ایپ یا ٹیلی گرام وغیرہ) کی تلاش میں رہتے ہیں۔

ٹی ٹی پی کا سوشل میڈیا بازو ’العمر میڈیا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور اسے مرکزی تنظیمی کنٹرول حاصل ہے۔ 

2020 کے بعد سے العمر میڈیا کی سوشل میڈیا صلاحیتوں نے مختلف عسکری دھڑوں کے ٹی ٹی پی میں ضم ہونے کے بعد ایک نئی سطح کو چھو لیا اور اہم بات یہ ہے کہ برصغیر کے دھڑے میں القاعدہ کی شمولیت عسکریت پسند کمانڈر منیب کی قیادت میں ہوئی۔

ان کا تعلق القاعدہ کے میڈیا ونگ الصحاب سے تھا۔ منیب نے ٹی ٹی پی کے سوشل میڈیا پروپیگنڈے کی شکل ہی تبدیل کردی ہے۔ 

جنوری 2023 میں منیب کو العمر میڈیا کا چارج دیا گیا۔ اسی طرح العمر میڈیا کے سابق سربراہ اور ٹی ٹی پی کمانڈر خالد بلتی (جو افغانستان میں پراسرار حالات میں مارے گئے تھے) کے مختصر دور نے بھی طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغان جیلوں سے ان کی رہائی کے بعد ٹی ٹی پی کے پروپیگنڈے کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

ٹی ٹی پی کے پروپیگنڈا اور پیغام رسانی کا ایک اشارہ یہ ہے کہ اب یہ تنظیمی معاملات سے متعلق ذمہ داری کے دعوے یا بیانات شائع کرنے تک محدود نہیں رہا ہے بلکہ یہ گروپ پاکستان میں ہونے والی اہم سیاسی اور اقتصادی پیش رفت پر بھی باقاعدگی سے تبصرہ کرتا ہے۔ 

العمر میڈیا کے پروپیگنڈا مواد میں درج ذیل چیزیں شامل ہیں:

  • معمول کے بیانات
  • انفوگرافکس
  • پشتو زبان کے دو ہفتہ وار پوڈ کاسٹ جو پاسون (بغاوت) عنوان کے تحت ہیں
  • عمر ریڈیو کی روزانہ پشتو زبان میں نشریات
  • اردو زبان کا ماہانہ رسالہ مجلہ تحریک طالبان پاکستان

العمر میڈیا کبھی کبھار کتابیں شائع کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ ویڈیو سیریز بھی چلاتا ہے۔

داعش خراسان کا سوشل میڈیا ٹی ٹی پی کے مقابلے میں زیادہ مرکزیت سے نہیں باندھا گیا۔ 

افغانستان میں علاقائی تسلط کھونے کے بعد داعش خراسان افغانستان-پاکستان مسابقتی عسکریت پسندی کے منظرنامے میں اپنے برانڈ کو زندہ رکھنے کے لیے سوشل میڈیا پروپیگنڈے پر بہت زور دے رہی ہے۔ 

طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد داعش کے پروپیگنڈے نے پاکستان، چین، ایران، انڈیا اور دیگر علاقائی ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات سمیت اپنے گروپ کو سیاسی اور نظریاتی قرار دینے کے لیے بہت زیادہ کوشش کی ہے۔ 

داعش خراسان انگریزی، پشتو اور عربی زبانوں میں بالترتیب تین میگزین شائع کرتی ہے۔

  • خراسان کی آواز
  • خراسان گھاگ
  • صوت الخراسان

العظیم فاؤنڈیشن داعش کا اہم سوشل میڈیا ہتھیار ہے جو مذکورہ رسالے، کتابیں، ویڈیو اور آڈیو بیانات شائع کرتا ہے۔ 

داعش خراسان نے مشرقی افغانستان کے شہر جلال آباد سے ایک ریڈیو چینل ’خلافت گھاگ‘ بھی چلایا۔ 2018 میں اس کی نشریات کو روک دیا اور پھر یہ 2021 کے شروع میں دوبارہ ابھرا اور طالبان کے قبضے کے بعد غیر فعال ہو گیا۔

ٹی ٹی پی اور داعش کے پروپیگنڈا ہتھیاروں کا موازنہ

ٹی ٹی پی اور داعش کے پروپیگنڈا ہتھیاروں کا سرسری موازنہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پہلے یہ زیادہ مرکزیت پسند تھے اور اب اس میں کمی آ رہی ہے۔ 

  • ٹی ٹی پی کا پروپیگنڈا مقامی ہے اور داعش کا اشاعتی مواد اپنے دائرہ کار اور مینڈیٹ میں علاقائی اور عالمی ہے۔ 
  • ٹی ٹی پی کی توجہ کا مرکز پاکستان اور اس کے سکیورٹی ادارے ہیں جبکہ داعش خراسان کی توجہ افغان طالبان کی حکومت سے لے کر القاعدہ، چین، پاکستان اور انڈیا جیسی علاقائی ریاستوں پر ہے۔ 
  • ٹی ٹی پی کے مقابلے میں داعش خراسان کی زبان اپنے مخالفین کے لیے زیادہ سخت ہے۔ 
  • ٹی ٹی پی اپنا پروپیگنڈا صرف اردو، پشتو اور بعض اوقات عربی میں شائع کرتا ہے جبکہ داعش خراسان اردو کے ساتھ انگریزی، پشتو، دری، فارسی، عربی، ازبک، تاجک، ملیالم اور کبھی کبھار ایغور میں بھی شائع کرتا ہے۔ 
  • العمر میڈیا شاذ و نادر ہی کتابیں یا ترجمہ شدہ مواد شائع کرتا ہے، جبکہ الاعظم فاؤنڈیشن باقاعدگی سے کتابوں کے ساتھ ساتھ ترجمہ شدہ مواد بھی شائع کرتی ہے۔

مخالف ماحول کے باوجود ٹی ٹی پی اور داعش خراسان دونوں سائبر سپیس میں کسی نہ کسی شکل میں اپنی موجودگی برقرار رکھے ہوئے ہیں اور یہ گروہ تنظیمی طور پر تیار ہیں۔ ان کے سوشل میڈیا کے ذرائع اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پروپیگنڈے کی نوعیت اس کے مطابق ہوتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماضی کا ٹریک ریکارڈ بتاتا ہے کہ اکاؤنٹس کی معطلی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے پروپیگنڈا مواد کو ہٹانا ضروری ہے لیکن سائبر ڈومین میں عسکریت پسندوں کے بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ شرط کافی نہیں ہے۔ 

ڈی پلیٹ فارمنگ اور سنسرشپ ان گروپس کو مزید انکرپٹڈ اور محفوظ پلیٹ فارمز کی طرف دھکیلتی جا رہی ہے لہٰذا، تنقیدی سوچ اور ڈیجیٹل خواندگی کے کلچر کو فروغ دینا انتہا پسندانہ پروپیگنڈوں کے خلاف رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ 

اسی طرح حکومت کو چاہیے کہ وہ انتہاپسندانہ بیانیے کے خلاف ایک متبادل نقطہ نظر کو فروغ دے اور اسے سوشل میڈیا چینلز کے ذریعے پھیلائے تاکہ یہ گروہ مذہب کی آڑ میں کمزور سماجی طبقات کی شکایات کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب نہ ہوں۔ 

پچھلے کچھ سالوں میں میدان جنگ جسمانی سے سائبر ڈومین تک پھیل گیا ہے اور انتہاپسند نیٹ ورکس اور ان کے نظریات کے خلاف نبردآزما ہونا اور ان شعبوں میں ان کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر