پاکستان میں جنگ اور عدم تحفظ نہیں چاہتے: نائب افغان وزیراعظم

افغانستان کے نائب وزیر اعظم برائے سیاسی امور مولوی عبدالکبیر کے مطابق ’ہم پاکستان کی سلامتی کو اپنے مفاد میں اور پاکستان میں عدم تحفظ کو اپنے نقصان میں سمجھتے ہیں۔‘

21 جولائی، 2023 کو مولوی عبدالکبیر پاکستانی سفارت کاروں سے ملاقات کے دوران (باختر نیوز ایجنسی)

افغانستان کے نائب وزیر اعظم برائے سیاسی امور مولوی عبدالکبیر نے جمعے کو کہا کہ ’افغانستان پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا اور کسی کو افغانستان کی سرزمین اپنے پڑوسیوں سمیت کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، نیز وہ پاکستان میں جنگ اور عدم تحفظ نہیں چاہتے۔‘

سرکاری بیان کے مطابق پاکستان کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان آصف درانی نے مولوی عبدالکبیر سے سپیدار پیلس کابل میں ملاقات کی۔

نائب وزیر اعظم پریس آفس افغانستان سے باختر نیوز ایجنسی کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق مولوی عبدالکبیر نے کہا کہ ’ہم پاکستان کی سلامتی کو اپنے مفاد میں اور پاکستان میں عدم تحفظ کو اپنے نقصان میں سمجھتے ہیں اور ایک مسلمان ہمسایہ ہونے کے ناطے ہم پاکستان میں جنگ اور عدم تحفظ نہیں چاہتے۔

’لہٰذا ہم کسی کو اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’جنگ کا تلخ تجربہ رکھنے والے ملک کی حیثیت سے ہم پاکستان کو جنگ کی بجائے امن کو ترجیح دینے کا مشورہ دیتے ہیں۔‘

17 جولائی کو پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ افغانستان کے موقف سے قطع نظر ’پاکستان اپنی سرزمین سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے‘ کے لیے پرعزم ہے۔ 

خواجہ آصف نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں مزید لکھا کہ ’یہ اس بات سے قطع نظر ہے کہ کابل اپنی سرزمین سے عسکریت پسندوں کے خاتمے کی خواہش رکھتا ہے یا نہیں۔‘

پاکستان فوج نے 13 جولائی، 2023 کو جاری بیان میں کہا تھا کہ ’پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے پر تشویش ہے اور اس کا تدارک ضروری ہے۔‘

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے بیان میں کہا کہ ’پاکستان فوج کو دوحہ معاہدے کے مطابق عبوری افغان حکومت سے توقع ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔‘

’تحریک طالبان پاکستان کی افغانستان میں موجود پناہ گاہوں اور سرگرمیوں کی آزادی پر شدید خدشات ہیں۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں افغان شہریوں کا ملوث ہونا ایک اہم پہلو ہے جس کا تدارک ضروری ہے۔ ایسے حملے برداشت نہیں کیے جائیں گے اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز اس کا موثر جواب دیں گی۔‘

اقوام متحدہ میں افغانستان کے مستقل نمائندہ سہیل شاہین نے عرب نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ٹی ٹی پی افغانستان میں نہیں بلکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہے، اگر وہ پاکستان کے اندر ہیں تو یہ ان کی ذمہ داری ہے، ہماری نہیں۔‘

21 جولائی کو ہوئی اس ملاقات میں پاکستان کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان آصف علی درانی کے ساتھ افغانستان میں پاکستان کے تعینات سفیر عبدالرحمن نظامانی بھی موجود تھے۔

آصف علی درانی نے کہا کہ ’دنیا کو افغانستان کی کامیابیوں، بالخصوص منشیات کے خاتمے کے حوالے سے پیش رفت کو تسلیم کرنا چاہیے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغان نائب وزیر اعظم نے دوران ملاقات مزید کہا کہ ’افغانستان پاکستان کے ساتھ سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی تعلقات کو وسیع اور مضبوط کرنا چاہتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ پاکستان اور افغانستان باہمی تجارت میں دوسروں سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘

’ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان افغان تاجروں کو کاروباری تعلقات بڑھانے کے لیے ویزے سمیت دیگر سہولیات فراہم کرے تاکہ دوطرفہ تجارت مزید بہتر ہو سکیں۔‘

مولوی عبدالکبیر کے مطابق ’ہمارے بہت سے ہم وطن پاکستان میں مقیم ہیں اور ہم ان کی میزبانی پر پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہیں، لیکن بعض اوقات اس بارے میں افسوس ناک خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔‘

انہوں نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ جو افغان تارکین وطن اس وقت پاکستانی جیلوں میں بند ہیں انہیں جلد از جلد رہا کیا جائے۔

آصف علی درانی کا کہنا تھا کہ ’افغانستان کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات ہیں اور ہم یہ تعلقات مضبوط بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے جواباً کہا کہ وہ ’پاکستان میں مقیم افغان تارکین وطن کے مسائل کے حل اور جیلوں میں قید افغان قیدیوں کی رہائی سمیت افغان تاجروں کو ویزے اور مزید سہولیات کی فراہمی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کریں گے۔

افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی نے طورخم جلال آباد روڈ پر مستقبل قریب میں بقیہ کام شروع کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا