کم عمر ملازمائیں اور بنگلوں کی بیگمات

سوشل میڈیا میں سماجی موضوعات کے لیے مہم چلانے کا ایک اہم طریقہ ’نیم اینڈ شیم‘ کہلاتا ہے، جس میں زور اس بات پہ دیا جاتا ہے کہ متاثرہ افراد نہیں کسی جرم میں ملوث مجرم کا چہرہ سرعام لایا جائے۔

رضوانہ یا اس جیسی کسی بھی بچی کے والدین اگر اپنی بیٹیوں کو کام پر لگاتے ہیں تو یہ موجودہ معاشی صورت حال میں ان کی وہ مجبوری ہے جس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں (پکسا بے)

محرم کا مہینہ ہے اور اس ماہ واقعہ کربلا کی تاریخ ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کریں۔ ننھی پری رضوانہ پر مبینہ طور پر ایک جج کی بیوی کا وحشیانہ تشدد اور جج صاحب کی مجرمانہ معاونت کا معاملہ ایسا ہے کہ سخت سے سخت دل بھی لرز کر رہ جائے۔

رضوانہ تشدد کیس کی تفصیل تصاویر سے بھی زیادہ بھیانک ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بچی کے سر میں موجود زخموں میں کیڑے پڑ چکے تھے، ہڈیوں میں فریکچر کئی ماہ پرانا ہے، سر کی چوٹوں کے باعث آنکھیں، گردے اور جگر شدید متاثر ہیں اور حالت اب بھی خطرے میں ہے۔ سوشل میڈیا پر نہ چاہتے ہوئے بھی زخمی رضوانہ کی تصاویر اور ویڈیوز کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔

پاکستان سے سوشل میڈیا استعمال کرنے والے ہر شخص نے اس معصوم کے زخمی چہرے اور سر کی ادھڑی ہوئی، خون میں لتھڑی ہوئی کھال کی تصاویر لگا رکھی ہیں اور بچی کے لیے انصاف مانگ رہے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ ننھی رضوانہ کی تصاویر کے بجائے ہمیں جرم ثابت ہونے پر اس وحشی خاتون کا دیدار کروایا جائے، جو تشدد میں اس حد تک آگے بڑھ گئیں، جج صاحب کی منہ دکھائی بھی ہو تاکہ علم ہوسکے کہ قانون و آئین کے نام نہاد محافظ خود کس قدر اس کی پاسداری کرتے ہیں۔

سوشل میڈیا میں سماجی موضوعات کے لیے مہم چلانے کا ایک اہم طریقہ ’نیم اینڈ شیم‘ کہلاتا ہے، جس میں زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ متاثرہ افراد نہیں بلکہ کسی جرم میں ملوث مجرم کا چہرہ سرعام لایا جائے۔

رضوانہ یا اس جیسی کسی بھی بچی کے والدین اگر اپنی بیٹیوں کو کام پر لگاتے ہیں تو یہ موجودہ معاشی صورت حال میں ان کی وہ مجبوری ہے جس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ یا تو ہم ان تصاویر کے لیے تیار رہیں جس میں فاقہ کشی سے تنگ آکر باپ اپنے چار بچوں اور بیوی سمیت گلے میں پھندا ڈال لیتا ہے۔

ریاست  سے فی الحال اپنا قبلہ سیدھا نہیں ہو رہا، ایسے میں حکومتی اداروں کے لیے ناممکن ہے کہ ہر گھر میں جھانک کر دیکھا جائے کہ کون سی باجی گرم چمٹے سے اپنی ننھی میڈ کو جلا رہی ہیں۔ کم از کم ہمارا معاشرہ خود ہی اپنی کوئی ایک ذمہ داری اٹھا لے۔

والدین بھوک و غربت کی صورت میں بچوں سے مزدوری نہ کروائیں تو ان کے پیٹ کا جہنم کون بھرے گا؟ مان لیا کہ بچوں کے کھیلنے کے دن ہوتے ہیں، مار کھانے کے نہیں، تو ہاتھ سے جھاڑو چھین کر کھلونے کون دے گا؟ انہیں تعلیم کے لیے بھیجا تو آنے جانے، کھانے پینے، لکھنے پڑھنے کا خرچہ کون اٹھائے گا ؟ ریاست اس پر مکمل خاموش ہے۔

ریاست کے پاس غربت کے ہاتھوں مجبور والدین کو دینے کے لیے مفت کے مشورے ہیں، آئین و قانون کی موٹی موٹی کتابیں ہیں اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنائی گئی خصوصی کمیٹیاں۔

چھوٹے بچوں کو کام پر لگانا تو چلیں سمجھ آگیا کہ افلاس زدہ والدین کی معاشی مجبوری ہے اور فی الحال پاکستان کے کمزور معاشی حالات میں ریاست پاکستان اس لائق نہیں کہ ملک کے کم سن شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرسکے، لیکن یہ بنگلے والی میڈموں کے وہ کون سے مسائل ہیں جو آئے روز کام والی بچیوں کے سر کھول دیتی ہیں، تھپڑوں سے ان بچیوں کے چہرے  لال کر دیتی ہیں، ان کے جسم کو جلاتی ہیں اور مکے مار کر ان کی آنکھیں نیلی کردیتی ہیں۔ جسمانی تشدد کے علاوہ گھریلو کم عمر ملازماؤں کو جنسی استحصال کا کس قدر سامنا رہتا ہوگا یہ الگ  پیچیدہ اور تحقیق طلب معاملہ ہے۔

ان باجیوں کا طریقہ واردات اتنا خونی، وحشی اور جان لیوا ہوتا ہے کہ یہ  ملازماؤں کو خود مارتی ہیں، اپنے بچوں سے پٹواتی ہیں، دل نہ بھرے تو شام کو شوہر آئے تو اس سے بھی ہڈیاں تڑواتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کم عمر گھریلو ملازماؤں کے پچھلے تمام کیسز اٹھا کر دیکھیں تو تشدد کا ایک اکلوتا واقعہ نہیں ہوا ہوتا کہ میڈم صاحبہ کا دماغ گھوما اور مار دیا۔ ہر کیس کی تفصیل ایک سی ہے کہ یہ تشدد تواتر، مسلسل ہوتا ہے اور اسی تشدد زدہ جسم کے ساتھ ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ بچی کام بھی کرے۔

 یہ جاننا اب لازمی ہوگیا ہے کہ ایسے شدید تشدد کی کیا نفسیاتی و معاشرتی وجوہات ہوسکتی ہیں، آیا ان خواتین کو کسی بھی قسم کے قانون کا کوئی ڈر ہے بھی کہ نہیں؟ اور اب تک ایسی کتنی وحشی خواتین کو کیا کیا سزائیں ہوئی ہیں، ان خواتین کے با اثر شوہر حضرات کیسے قوانین کے تکنیکی سقم سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اس بارے میں عوام کو آگاہ کیا جانا ضروری ہے۔

اگر کل کو یہ خبر آجائے کہ زخمی بچی کے والدین نے پیسے لے کر ملزمہ سے صلح کرلی اور تشدد کے تمام چارجز کو واپس لے لیا تو ہمیں کوئی تعجب نہیں ہوگا کیونکہ اس پورے معاملے کا آغاز بہرحال متاثرہ فریق کے پاس پیسے نہ ہونے کی مجبوری سے ہوتا ہے اور اس بات کا اندازہ بنگلے والی میڈم کو اچھی طرح ہوتا ہے، اسی لیے بنا خوف و خطر ڈنڈے چلاتی ہیں۔

ریاست  سے فی الحال اپنا قبلہ سیدھا نہیں ہو رہا، ایسے میں حکومتی اداروں کے لیے ناممکن ہے کہ ہر گھر میں جھانک کر دیکھا جائے کہ کون سی باجی گرم چمٹے سے اپنی ننھی میڈ کو جلا رہی ہیں۔ کم از کم ہمارا معاشرہ خود ہی اپنی کوئی ایک ذمہ داری اٹھا لے۔

میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ رضوانہ تشدد کیس کے مبینہ ملزمان سول جج عاصم حفیظ اور اہلیہ کے قریبی ملنے والوں، دوستوں، پڑوسیوں، گھر یا گھر سے باہر دیگر ملازموں کے علم میں ہوگا کہ خاتون خانہ روزانہ تشدد کا شوق فرماتی ہیں اور بچی کی حالت نازک ہو رہی ہے، ان میں سے کسی ایک نے بھی ظلم کے ہاتھ کو روکنے کے لیے واقعے کو پولیس میں رپورٹ کیا ہوتا تو بچی کی حالت اتنی خستہ نہ ہوتی۔

سوشل میڈیا کے ٹرینڈز کا زور بہرحال اپنی جگہ لیکن خود ہمیں بطور معاشرہ بھی ایسے واقعات ہونے پر یہ دیکھنا ہوگا کہ خود ہم کہاں کھڑے ہیں، کیا علم ہونے پر ہم ایسے واقعات رپورٹ کرتے ہیں، اپنی سماجی ذمہ داری لیتے ہیں۔ یقین کریں کہ آپ کی یہ انتہائی چھوٹی سی بہادری کسی چھوٹی سی بچی کی جان بچا سکتی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ