پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کا بل تنقید کے بعد ایجنڈے سے ڈراپ

سینیٹرز کی شدید تنقید کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کہا کہ ’حکومت کرے نہ کرے، میں اس بل کو ڈراپ کر رہا ہوں۔‘

پاکستان کے ایوان بالا کا اندرونی منظر (تصویر سینیٹ آف پاکستان آفیشل فیس بک پیج)

پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) میں آج پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کا بل پیش کیا گیا، تاہم حکمران جماعت مسلم لیگ ن سمیت سیاسی جماعتوں کے اراکین کی بل پر تنقید کے بعد اسے اجلاس کے ایجنڈے سے ڈراپ کر دیا گیا۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں وزیر مملکت برائے قانون و انصاف شہادت ایوان نے یہ بل پیش کیا تھا، جس پر چیئرمین سینیٹ نے مجوزہ بل پر ایوان سے رائے طلب کی تھی۔

سب سے پہلا اعتراض مسلم لیگ ن کے ہی سینیٹرعرفان صدیقی کی جانب سے اٹھایا گیا، جن کا کہنا تھا کہ  ’پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کا بل برائے 2023 اہمیت کا حامل ہے، اس بل کو پاس کرنے سے پہلے کمیٹی میں پیش کرنا چاہیے تھا، کل کو کوئی بھی اس بل کا شکار ہوسکتا ہے، ابھی جلد بازی میں بل پاس ہو رہا ہے، کل کہا جائے گا کہ بل پاس ہورہا تھا تو آپ کہاں تھے۔‘

پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی وفاقی وزیر برائے ماحولیات اور سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ’بل عجلت میں پاس کرنے میں کوئی ممانعت نہیں، ہم اس بل میں اپنی ترامیم لائیں گے۔‘

پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر ہمایوں مہمند نے اس بل کو پی ٹی آئی کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ اتنا اہم بل ہے۔ اس سے بہت سے لوگوں کی زندگیوں پرفرق پڑسکتا ہے۔‘

 انہوں نے کہا کہ ’لگتا ہے یہ تحریک انصاف کو عام انتخابات میں روکنے کا بل ہے، مجھے اس بل سے یہی بو آرہی ہے۔‘

نیشنل پارٹی کے سینیٹر میر طاہر بزنجو نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’یہ بل جمہوریت پر حملہ ہے، جو لوگ خوش ہیں کہ اس کی زد میں کوئی اور آئے گا، کل جو بھی اس ملک میں مظلوم کی بات کرے گا، وہ اس کا نشانہ بنے گا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ن لیگ نے اس بل پر اعتماد میں نہیں لیا۔ بقول طاہر بزنجو: ’بدقسمتی سے ہمارے اتحاد کے تمام بڑے فیصلے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کر رہی ہیں۔ یہ بل جمہوریت کے خلاف ہے۔ اگر بل منظور کیا گیا تو ایوان سے ٹوکن واک آؤٹ کروں گا۔‘

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ’اس بل کے ذریعے آپ اپنے ہاتھ کاٹ رہے ہیں۔ یہ ہم سب کے لیے مصیبت بنے گا۔‘

جے یو آئی کے سینیٹر عبدالغفور حیدری نے بھی اس بل کی مخالفت کی۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ ’یہ بل جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ہے، یہ پارلیمنٹ کے ذریعے جمہوریت کی تدفین ہے۔ یہ بل صرف پی ٹی آئی نہیں بلکہ تمام جماعتوں کے خلاف ہے۔‘

اجلاس کے دوران جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق پراچہ نے کہا کہ ’آج یہ قانون ایک جماعت کے لیے بنایا جا رہا ہے، کل کو سب کے خلاف استعمال ہوگا۔‘

سینیٹرز کی رائے سننے کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے بل ایجنڈے سے ڈراپ کرتے ہوئے کہا کہ ’آج اجلاس بل کے لیے نہیں بلکہ ایوان کے دن پورے کرنے کے لیے بلایا تھا، حکومت اس بل کو ڈراپ کرے نہ کرے، میں ڈراپ کرتا ہوں۔‘

مجوزہ بل کی تفصیلات

انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب مجوزہ بل کے مسودے کے مطابق انتہا پسندی میں ملوث فرد کو 10 سال تک قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ ہو سکے گا، جبکہ پرتشدد شخص کو کسی بھی سطح پر الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہو گی۔

مجوزہ بل کے مطابق پرتشدد انتہا پسندی سے مراد نظریاتی عقائد، مذہبی اور سیاسی معاملات یا فرقہ واریت کی خاطر دھمکانا، طاقت کا استعمال اور تشدد کرنا، اکسانا یا ایسی حمایت کرنا ہے، جس کی قانون میں ممانعت ہے۔

بل کے مطابق پرتشدد انتہا پسندی میں ایسے کسی فرد یا تنظیم  کی مالی معاونت کرنا بھی شامل ہے، جو پرتشد انتہا پسند ہو۔ اسی طرح شیڈیول میں شامل شخص کو تحفظ اور پناہ دینا بھی پرتشدد انتہا پسندی ہے۔

مجوزہ بل کے مطابق اگر حکومت مطمئن ہو کہ کوئی شخص یا تنظیم پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث ہے تو اسے لسٹ ون اور ٹو میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

مجوزہ بل میں کیٹیگریز کون کون سی ہیں؟

اس حوالے سے مختلف فہرستیں ترتیب دی گئی ہیں۔

پہلی فہرست میں وہ تنظیم ہو گی، جو پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث ہے، جس کا سربراہ خود پرتشدد ہو، یا تنظیم نام بدل کر دوبارہ منظر عام پر آئی ہو۔

دوسری فہرست میں ایسا شخص شامل ہے، جو پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث ہو، پرتشدد ادارے کا سربراہ یا حصہ ہو یا پرتشدد ادارے کی مالی معاونت کرتا ہو۔

حکومت پرتشدد تنظیم یا فرد کے خلاف کیا کارروائی کرے گی؟

مجوزہ بل کے مطابق:

۔ حکومت پرتشدد فرد اور پرتشدد تنظیم کی میڈیا تک رسائی یا اشاعت پر پابندی عائد کرے گی۔

۔ حکومت پرتشد فرد یا تنظیم کے سربراہ یا فرد کی پاکستان کے اندر نقل و حرکت یا باہر جانے پر پابندی عائد کرے گی۔

۔ حکومت پر تشدد تنظیم کے اثاثوں کی چھان بین کرے گی اور پرتشد تنظیم کے سربراہ، عہدیداران اور اراکین کی سرگرمیاں مانیٹر کرے گی۔

۔ حکومت پرتشدد تنظیم کے سربراہ، عہدیدارن اور اراکین کا پاسپورٹ ضبط کرے گی اور انہیں بیرون ملک سفر کی اجازت نہ ہو گی۔

۔ پرتشدد تنظیم کے سربراہ، عہدیدارن اور اراکین کے اسلحہ لائسنس منسوخ کر دیے جائیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

۔ پر تشدد تنظیم کے اثاثے، پراپرٹی اور بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے جائیں گے۔

۔ پرتشدد  تنظیم  کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہ ہو گی۔

۔ کوئی مالیاتی ادارہ پرتشدد تنظیم کے سربراہ، عہدیداران یا اراکین کو مالی معاونت نہیں دے گا۔

۔ حکومت پرتشدد فرد کو علاقہ چھوڑنے یا علاقے میں رہنے کی ہدایت کرے گی۔

۔ حکومت پرتشدد شخص اور ان کے اہل خانہ، بہن بھائیوں اور رشتہ داروں کے اثاثوں کی چھان بین کرے گی۔

 ۔ حکومت پرتشدد شخص کی مانیٹرنگ کرے گی۔

۔ حکومت متعلقہ شخص کو ڈی ریڈیکلائزیشن کی تربیت دے گی۔

۔ پرتشدد شخص کو کسی بھی سطح پر الیکشن لڑنے کی اجازت نہ ہو گی۔

کیا نامزد افراد/ تنظیم کو اپیل کا حق حاصل ہو گا؟

مجوزہ بل کی تفصیلات کے مطابق:

۔ قابل سزا جرم سیشن کورٹ کے ذریعے قابل سماعت ہو گا۔ جرم ناقابل ضمانت اور Non Compoundable ہوگا (جس میں دوسرے فریق سے مصالحت نہیں ہوسکتی اور ٹرائل لازمی ہے) اور اس معاملے کی پولیس یا کوئی اور ادارہ تحقیقات اور انکوائری کرے گا۔

۔ حکومت پرتشدد تنظیم یا ادارے کے رویے کو دیکھ کر انہیں لسٹ ون یا ٹو سے نکالنے کا دوبارہ جائزہ لے سکتی ہے۔

۔ متاثرہ تنظیم یا فرد 30 دن کے اندر جائزہ کمیٹی کے سامنے درخواست دائر کرے گا اور درخواست مسترد ہونے پر ہائی کورٹ میں اپیل دائر ہو گی۔

۔ متعلقہ محکمہ  کسی بھی وقت فرد یا تنظیم کو لسٹ سے نکال سکتا ہے۔ڈی لسٹ ہونے کے بعد فرد یا تنظیم کو  چھ ماہ تک زیر مشاہدہ رکھا جائے گا اور وقت میں توسیع بھی کی جا سکتی ہے۔

ملوث افراد کو کیا سزائیں دی جائیں گی؟

مجوزہ بل کے مطابق:

۔ پرتشدد انتہا پسندی کے مرتکب شخص کو تین سے 10 سال تک سزا اور 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا۔

۔ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے شخص کو ایک سے پانچ سال تک قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا۔

۔ پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث تنظیم کو 50 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا اور  تنظیم تحلیل کر دی جائے گی۔

۔ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والی تنظیم کو 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا۔

۔ جرم ثابت ہونے پر فرد یا تنظیم کی پراپرٹی اور اثاثے ضبط کر لیے جائیں گے۔ معاونت یا سازش یا اکسانے والے شخص کو بھی 10 سال تک قید اور  20 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔

۔ جرم کرنے والے شخص کو پناہ دینے والے کو بھی قید اور جرمانہ ہو گا۔

۔ اسی طرح حکومت کو معلومات یا معاونت دینے والے شخص کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔

۔ حکومت فہرست میں شامل شخص یا تنظیم کے سربراہ اور اراکین کو  گرفتار کرکے 90 روز تک حراست میں رکھ سکتی ہے اور اس مدت میں 12 ماہ تک توسیع ہو سکتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان