کم عمر گھریلو ملازمین رکھنا جرم قرار دینے کا مطالبہ

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے پیر کو مطالبہ کیا ہے کہ کم عمر گھریلو ملازمین کی ملازمت کو جرم قرار دیا جائے۔

ایک پاکستانی بچی 13 مارچ 2012 کو ملتان میں فروخت کے لیے استعمال شدہ کتابوں کا ڈبہ اٹھائے ہوئے (بے اسمویو / اے ایف پی)

اسلام آباد میں سول جج کی رہائش گاہ پر کام کرنے والی کم عمر گھریلو ملازمہ کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے تازہ واقعے نے پاکستان میں کم عمر ملازمین کو گھر پر رکھنے کے عمل کو جرم قرار دینے کی بحث چل پڑی ہے۔

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے پیر کو مطالبہ کیا ہے کہ کم عمر گھریلو ملازمین کی ملازمت کو جرم قرار دیا جائے۔

 کمیشن کی چیئرپرسن حنا جیلانی نے 13 سالہ رضوانہ بی بی کے کیس کے بعد مطالبہ کیا ہے کہ کم عمر گھریلو ملازمین کی ملازمت کو جرم قرار دیا جائے۔ 

 چودہ سالہ رضوانہ کے والدین نے الزام عائد کیا کہ جج کی بیوی بچی کی حالت کی ذمہ دار ہے۔  اس لڑکی کی ویڈیوز اور تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس کے سر پر گہری چوٹیں آئیں ہیں، اس کا چہرہ سوج چکا ہے اور اس کے ہاتھوں اور ٹانگوں پر زخم ہیں۔ 

سرگودھا پولیس نے تصدیق کی ہے کہ بچے پر تشدد کے واضح نشانات تھے اور وہ ڈسٹرکٹ ہسپتال میں اب زیر علاج ہیں۔

ایڈوکیٹ سپریم کورٹ ضیا احمد اعوان کا اس حوالے سے موقف ہے کہ ’حالیہ گھریلو ملازمہ تشدد کیس چائلڈ لیبر نہیں بلکہ غلامی ہے، پاکستان میں اینٹی سلیوری لا اور انٹرنیشنل کنونشن پر دستخط ہو چکے ہیں، اسے چائلڈ لیبر کا نام دے کر اسے بڑھاوا دیا جاتا ہے تاکہ یہ کام چلتا رہے، پاکستان کے آئین میں اس کی اجازت نہیں ہے۔‘

سندھ کمیشن آن دی سٹیٹس آف دی وومین کی چیئرپرسن نزہت شریں کے مطابق ’قومی اسمبلی میں بیٹھے قانون سازوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ مزدور بچوں کے حقوق کے لیے موثر قانون سازی کریں۔

جو بھی قانون سازی ہو وہ آئی ایل او کے کنونشنز کے مطابق ہونی چاہیے۔ 2020 میں وفاقی وزارت برائے انسانی حقوق نے وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد گھروں میں کام کاج کے لیے بچوں کو ملازم رکھنا چلڈرن ایمپلائمنٹ ایکٹ 1991 کے تحت غیر قانونی قرار دے دیا تھا، جس کے بعد ہر صوبے کو قراردار کے ذریعے اسے اپنے صوبے میں نافذ کرنا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ نے کم عمر بچیوں کو گھریلو ملازمہ رکھنے کے حوالے سے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اسلام آباد میں اثر ورسوخ رکھنے والی جج کی بیوی نے بطور مالکن جلاد جیسا برتاؤ کیا جس کے بعد انسانیت ختم ہوتی دکھائی دی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر ہم اس مسئلے کی وجوہات کا جائزہ لیں تو سب سے پہلی وجہ طبقاتی فرق ہے جو غرور اور تکبر کو جنم دیتا ہے۔

ملازمین بچوں اور ان کے مالکان کے طبقے اور تعلق میں انتہا درجے کا عدم توازن ہوتا ہے جس سے مالکان میں حاکمانہ قسم کا احساس برتری پیدا ہو جاتا ہے جبکہ ملازمین میں عدم تحفط اور بے بسی کے احساسات جنم لیتے ہیں۔ طاقت کا یہی عدم توازن ہے جس میں سارا اختیار اور طاقت ایک طرف اور دوسری جانب مکمل بے بسی ہوتی ہے۔‘

عورت فاؤنڈیشن کی سربراہ مہناز رحمان کا اس حوالے سے موقف تھا کہ ’چائلڈ لیبر بشمول کم سن بچوں کی گھروں میں ملازمتوں کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ غربت ہے، انسان جانتا ہے کہ بھوکا پیٹ ہر ظلم سہنے کو تیار ہو جاتا ہے، اس کے ساتھ چاہے کھلونوں جیسا سلوک کرو اور پیسے دے کر چپ کروا لو، کوئی کچھ نہیں بولے گا۔‘

’اسی طرح کم سن گھریلو ملازمین کے ساتھ بدسلوکی میں والدین بھی برابر کے شریک ہیں اور جب بچوں پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹ جائیں تب بھی چپ سادھ لیتے ہیں، ان کیسز کو رپورٹ نہیں کیا جاتا، جبکہ یہ کیسز رپورٹ ہو جائیں اور ان کے خلاف آواز اٹھائی جائے تو یقیناً یہ ناسور کم ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں گھریلو ملازمین پر تشدد کے تقریباً 80 سے 90 فیصد کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان