خواتین گھریلو تشدد کیوں برداشت کرتی ہیں؟

جو خواتین معاشرے کے تابع ہیں وہ تشدد کو اپنی قسمت سمجھ کر قبول کر لیتی ہیں لیکن جو اپنی تقدیر خود لکھنا چاہتی ہیں وہ آج نہیں تو کل ’بس، بہت ہو گیا‘ کہہ کر آگے بڑھ جاتی ہیں۔

25 نومبر 2009 کو کراچی میں خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے موقعے پر شرکا نعرے لگا رہی ہیں (اے ایف پی)

پچھلے برس پانچ اگست کو معروف انڈین اداکارہ عالیہ بھٹ کی فلم ’ڈارلنگز‘ ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں وہ ایک تشدد پسند شوہر کی بیوی کا کردار ادا کر رہی تھیں۔

وہ عالیہ پر جسمانی تشدد کرتا تھا لیکن عالیہ پھر بھی ایک امید کے سہارے اس کے ساتھ رہ رہی تھیں۔

ان کی والدہ انہیں اس آدمی کو چھوڑنے کا کہہ رہی تھیں لیکن وہ ہمیشہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر بات ٹال دیتیں۔

ہر عام عورت کی طرح انہیں بھی لگتا تھا کہ ایک ننھے منے بچے کی آمد ان کے رشتے کو بہتر بنا دے گی، لیکن فطرت کہاں بدلتی ہے۔

وہ حاملہ تھیں۔ ان کے شوہر نے اسی حالت میں انہیں سیڑھیوں سے نیچے پھینک دیا۔

پھر فلم میں کہیں ایک ڈائیلاگ آتا ہے کہ مرد خواتین پر ظلم کیوں کرتے ہیں؟ جواب میں کہا جاتا ہے کیونکہ خواتین انہیں کرنے دیتی ہیں۔ یہ ڈائیلاگ اتنا جاندار تھا کہ دل عَش عَش کر اٹھا۔

پدرشاہی عورتوں کو سکھاتی ہے کہ دیکھو ایسا تو ہوگا۔ تھوڑا سا مشکل وقت تو دیکھنا پڑے گا۔ وہ مرد ہے۔ طاقت ور ہے۔ تمہارا مالک ہے۔

دن بھر کا تھکا ہارا گھر آتا ہے۔ اس حالت میں اس سے شکایت کرو گی تو وہ آگے سے پیار سے جواب تو نہیں دے گا۔

بہشتی زیور میں بھی کچھ ایسے ہی ہدایت نامے لکھے ہوئے ہیں۔ اس کا خیال رکھو۔ اس کے کہنے سے پہلے اس کے کام کر دیا کرو۔

جب اس کا موڈ اچھا دیکھو تب اپنے دل کا حال کہہ دیا کرو۔ ہو سکتا ہے وہ تب تمہاری بات سن لے۔

یعنی بس ایک امید کے سہارے زندگی گزارے جاؤ کہ کبھی تو وہ اچھا ہوگا۔ کبھی تو اس کا دل بدلے گا۔ کوئی ایک لمحہ اسے تمہاری قدر کروائے گا۔

پھر تم اس گھر کی بھی اور اس کے دل کی بھی ملکہ بنو گی۔ ہمارے ہر دوسرے گھر میں کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔

شروع میں مرد عورت پر حاوی ہوتا ہے۔ اس پر اپنی پسند کی پابندیاں لگاتا ہے۔ اس سے جیسے چاہے سلوک کرتا ہے۔ وقت بدلتا ہے۔ حالات بدلتے ہیں۔ پھر طاقت عورت کے پاس آ جاتی ہے۔ ہم اسے اس عورت کی کامیاب زندگی کہتے ہیں۔

جو خواتین شروع میں ہی اس تشدد کو سہنے سے انکار کر دیتی ہیں، وہ ایک کنفیوژن میں یہ فیصلہ لیتی ہیں۔ آگے کیا ہوگا۔ انہیں کچھ نہیں پتہ۔ لیکن اس لمحے انہیں پتہ ہوتا ہے کہ یہ غلط ہے اور وہ ان حالات کو قبول نہیں کر سکتیں۔

کچھ ایسی ہی کہانی صبا قمر کی فلم کملی میں دکھائی گئی ہے۔ ایک انٹرنیشنل فلائٹ کے دوران وہ فلم دیکھنے کا موقع ملا۔

فلم میں صبا قمر ایک ایسی بیوی کا کردار ادا کر رہی ہیں، جن کے شوہر خاندان کا مستقبل بہتر بنانے کے لیے ملک سے باہر گئے تھے اور اب سالوں سے لاپتہ تھے۔

وہ اپنی نابینا نند کے ساتھ رہ رہی تھیں جو ان کے آنے جانے پر کڑی نظر رکھتی تھیں۔ محلے سے اگر کبھی کسی نے کہا کہ اس کا کچھ سوچو، جوان جہان ہے۔ تمہارے بھائی کا کچھ پتہ نہیں، کیوں گناہ اپنے سر لے رہی ہو تو وہ اسے ہزار صلاواتیں سناتیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صبا قمر جن کا فلم میں نام حنا ہے، اپنے دل میں ہزاروں خواہشات کو دبائے بس ایک خشک سی زندگی گزار رہی ہیں۔

اس دوران ان کا تخیل انہیں ایک مرد کا اسیر بنا دیتا ہے۔ وہ اس کے ساتھ اپنی خواہشات پوری کرتی ہیں، باتیں کرتی ہیں، ہنستی ہیں، کھیلتی ہیں۔ دوسری طرف ان کی نند ان کے دیر سے گھر آنے پر پریشان رہتی ہے۔

ایک دن پھر سے اپنی نند کے منہ سے اپنے شوہر کا ذکر سن کر وہ چیخ پڑتی ہیں کہ بس، بہت ہوگیا۔ کہاں ہے وہ۔ وہ بس اس صندوقچے میں ہے، جس سے فینائل کی بدبو آ رہی ہے۔

ان کے بس کرنے پر ان کی نند انہیں بتاتی ہیں کہ ان کا شوہر تو کب کا مر چکا۔ وہ غیر قانونی طور پر بیرونِ ملک جا رہا تھا، راستے میں ہی مر گیا۔ انہوں نے اپنی خود غرضی میں حنا کی جوانی ضائع کر دی۔

ایسی کہانیاں دیکھنے کے بعد میں سوچتی ہوں کہ تشدد تب ہی رکتا ہے جب عورت بس کہتی ہے، اس کے بعد کسی مرد یا عورت کی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ اس پر تشدد کر سکے۔

ہم ایسی عورتوں کو بری عورتیں کہتے ہیں اور تشدد برداشت کرنے والی عورتوں کو اچھی عورتیں کہتے ہیں۔

جو خواتین معاشرے کے تابع ہیں وہ اس تشدد کواپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیتی ہیں۔ جو اپنی تقدیر خود لکھنا چاہتی ہیں وہ آج نہیں تو کل ’بس، بہت ہو گیا‘ کہہ کر آگے بڑھ جاتی ہیں۔

دنیا بہت بڑی ہے۔ اس میں تسخیر کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ وہ قدم اٹھانے کے بعد انہیں کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے۔ کم از کم ایک دلی و دماغی سکون تو ضرور ملتا ہے جو اس رشتے میں انہیں نہیں مل پا رہا تھا اور میرے خیال میں اس سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔

نوٹ: یہ بلاگ لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین