آٹھ سال قبل شادی کے صرف ایک ہی برس بعد 33 سالہ منال کا شمار ہر سال طلاق لینے والی ہزاروں عراقی خواتین میں ہونے لگا تھا۔
عراق کے قدامت پسند معاشرے میں شادی ٹوٹنے کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔
کئی دیگر خواتین کی طرح منال کے لیے بھی اس (طلاق) کی بڑی وجہ ان کے شوہر کا اپنے خاندان کے کاروبار پر مالی انحصار تھا، جس کا مطلب تھا کہ ’وہ اپنا کوئی فیصلہ نہیں لے سکتے تھے۔‘
منال کے سابق شوہر ان کے کزن بھی ہیں، جو اپنے والد کی دکان پر کام کرتے تھے۔
وہ نہ صرف پیسوں کے لیے اپنی فیملی پر انحصار کرتے تھے بلکہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ والدین کے ساتھ رہتے تھے۔
منال کا کہنا تھا: ’وہ (ان کے شوہر) مالی طور پر خود مختار نہیں تھے، جس کی وجہ سے خاندانی مسائل پیدا ہوئے۔‘
ملک کی سپریم جوڈیشل کونسل کے شائع کردہ اعداد و شمار کے مطابق، ان کی دلیل ہزاروں عراقی خواتین کی آواز ہے۔
عراقی حکام کے مطابق طلاق کی زیادہ شرح کے اہم محرکات میں معاشی مشکلات، کم عمری کی شادیاں اور نئی ٹیکنالوجیز کے ذریعے بے وفائی کی حوصلہ افزائی شامل ہیں۔
چار کروڑ 20 لاکھ کی آبادی والے ملک میں عدالتوں نے 2021 میں 73 ہزار سے زیادہ طلاقوں کا فیصلہ سنایا، جو بڑی حد تک 2018 کی تعداد کے برابر ہے۔
کونسل کی ویب سائٹ کے مطابق یہ شرح 2004 سے 2014 کے دوران اوسطاً 51 ہزار 700 سالانہ سے زیادہ ہے۔
اس دہائی کے دوران ہر پانچ میں سے ایک شادی طلاق پر ختم ہوئی۔
طلاق کی وجوہات کے بارے میں سپریم جوڈیشل کونسل کی شائع ہونے والی ایک تحقیق میں لکھا گیا: ’شریک حیات کا اپنے خاندان پر مالی انحصار‘ سمیت ’شریک حیات کے خاندان کے ساتھ رہنا، اور اس کی وجہ سے تعلقات میں منفی مداخلت ہوتی ہے۔‘
اس تحقیق میں روزگار تلاش کرنے میں دشواریوں اور ’انٹرنیٹ کی وجہ سے بے وفائی‘ کا بھی حوالہ دیا گیا جبکہ کم عمری کی شادیاں بھی طلاق کا ایک محرک ہیں۔
2021 کے اختتام تک گذشتہ دو برسوں میں مجموعی طور پر چار ہزار 92 نوعمر لڑکیوں کو طلاق ہوئی۔
تجربہ کار رضا کار حنا ایڈورڈ نے ’خاندانوں پر مالی دباؤ‘ کو طلاق کی وجہ کے طور پر بیان کرتے ہوئے ان خواتین کو سلام پیش کیا، جن میں طلاق کی ہمت پیدا ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا: ’اس سے نفسیاتی بوجھ اور مسائل پیدا ہوتے ہیں۔‘
عراق بھی عالمی کرونا وبا کے ساتھ آنے والے گھریلو تشدد میں اضافے سے نہیں بچ سکا۔
حنا ایڈورڈ نے کہا: ’خواتین میں یہ شعور آیا ہے کہ اگر ان کی اور ان کے بچوں کی زندگیوں میں تشدد رہنا ہے تو بہتر ہے طلاق لے لیں۔‘
لیکن عراق جیسے پدرسری معاشرے میں طلاق یافتہ مرد اور طلاق یافتہ عورت برابر نہیں۔
حنا ایڈورڈ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’اپنے بچوں کی تحویل حاصل کرنے کے لیے اکثر مشکل لڑائی کے علاوہ، خواتین کو ان مردوں کے جانب سے ’جنسی ہراسانی‘ کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جن کا خیال ہے کہ انہیں طلاق یافتہ خواتین کے ساتھ دست درازی کا حق حاصل ہے۔‘
’بدنامی‘ اور ’لوگ کیا کہیں گے؟‘ کے خوف سے بھی کچھ خاندان طلاق یافتہ خواتین کو کام کرنے یا آزادانہ طور پر باہر جانے کی اجازت دینے سے گریز کرتے ہیں۔
’جہاں تک مردوں کا تعلق ہے تو معاشرتی طور پر ہر چیز قابل قبول ہے۔ وہ آج، طلاق دیتا ہے، کل دوبارہ شادی کر لیتا ہے۔‘
شادی کے لیے وقت کا انتظار کریں
اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے بہت سی خواتین بے خوف ہو گئی ہیں۔
جوڈیشل کونسل کی ویب سائٹ پر 2019 میں ایک مجسٹریٹ کے حوالے سے کہا گیا کہ ’عدالتی ریکارڈ میں طلاقوں کے اندراج میں اضافہ ہوا خاص طور پر گزشتہ ایک دہائی کے دوران۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شادی شدہ جوڑوں کے درمیان مشترکہ بنیاد دوبارہ قائم کرنے کی غرض سے عدالتوں میں دائر طلاق کے مقدمات کی چھان بین کرنے والے ایک سماجی کارکن تسلیم کرتے ہیں کہ ’طلاق بہت زیادہ عام ہو گئی ہے۔‘
بغداد کی ایک عدالت میں نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’صرف 10 فیصد کیسز میں ہی ہم کوئی حل تلاش کر پاتے ہیں‘ اور طلاق کی کارروائی روک دیتے ہیں۔
منال اب اپنے والدین کے گھر میں رہتی اور ایک فیمنسٹ تنظیم کے لیے کام کرتی ہیں۔ ان کا نو سالہ بیٹا آدم وقتاً فوقتاً اپنے والد کو ملتا رہتا ہے۔
اپنی پہلی شادی ختم ہونے کے باوجود منال نے دوبارہ شادی کرنے کے امکان رد نہیں کیا، لیکن ان کا کہنا ہے کہ شرائط کا پورا ہونا لازمی ہے۔
مستقبل کے شوہر کے لیے لازمی ہے کہ وہ ان کے بیٹے سمیت ان کے پیشہ ورانہ عزائم کو بھی قبول کرے۔
’آپ کو انتظار کرنا چاہیے، شادی زندگی میں آپ کی واحد خواہش نہیں ہونی چاہیے۔‘
(ایڈیٹنگ: عبداللہ جان | ترجمہ: العاص)