کوہ پیما نائلہ کیانی پاکستان کی پہلی خاتون ہیں جنہیں آٹھ ہزار میٹرز سے بلند آٹھ پہاڑ کی چوٹیوں کو سر کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔
نائلہ کیانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں کہا: ’ایک سال پہلے جب کے ٹو بیس کیمپ پر شادی کی تصاویر بنوائیں تھیں تب وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میں پہاڑ سر کروں گی۔‘
انہوں نے کہا کہ دو سال پہلے آٹھ ہزار سے بلند پہلی چوٹی گشربرم ٹو (جی ٹو) صرف اس لیے سر کی کیونکہ میں وہاں موجود پروفیشنل کوہ پیماؤں سے سیکھنا چاہتی تھی۔
نائلہ نے بتایا کہ پاکستان کی پانچوں بلند چوٹیاں سر کر لی ہیں نیپال کی تین سر کی ہیں۔ اب چار نیپال اور اور دو چین کی رہ گئی ہیں۔
جب پوچھا گیا کہ یہ چوٹیاں کب سر کر رہی ہیں تو اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جیسے سپانسرز مل جائیں گے تو میں ہو سکتا اسی سال دو پہاڑ مزید سرکر لوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’کبھی سوچا نہیں کہ بغیر آکسیجن کے ایڈوینچر کریں؟‘
اس سوال کے جواب میں نائلہ نے کہا کہ دل تو ہے لیکن گائیڈ نے تاکید کی ہے کہ رسک نہیں لینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جی ٹو میں نے سات ہزار میٹر چار سو میٹر کی بلندی تک بغیر آکسیجن کے کی تھی لیکن اس سے آگے آکسیجن کا استعمال کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ تبت کے پہاڑ کو بغیر آکسیجن کے سر کرنے کی کوشش کروں گی۔
پہاڑوں کو سر کرنا مہنگا شوق ہے۔ آپ فنڈز کو کیسے مینج کرتی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں نائلہ نے کہا: ’ایک چوٹی خود ذاتی خرچے پر سر کی تھی جبکہ باقی سپانسر جمع کیے تھے کچھ این جی اوز نے بھی سپانسر کیا تھا۔ اور پاکستان آرمی بھی ایک چوٹی سپانسر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ امید ہے جلد کر دیں گے۔‘
نائلہ نے کہا کہ کے ٹو کے ’بوٹل نیک‘ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بہت مشکل ہے۔ اس کو کراس کرنا اتنا مشکل نہیں ہے لیکن کے ٹو پہاڑ کی چڑھائی بہت ڈھلوان ہے اس لیے مشکل ہے۔
انہوں نے کہا ’کے ٹو بوٹل نیک‘ کے بعد ’بلیو آئس‘ پر ایسا لگا کہ شاید یہاں سے واپس نہیں جا سکوں گی کیونکہ میرے آگے 150 کوہ پیما تھے اور رکنے کی وجہ سے برف پر پاؤں پھسل رہے تھے اور رسی کی مدد سے خود کو اٹکایا ہوا تھا۔ وہ بہت مشکل مرحلہ تھا۔‘