افغان خاتون کوہ پیما کی نظریں ماؤنٹ ایورسٹ پر

فاطمہ سلطانی کو امید ہے کہ وہ افغانستان کے میرسمیر پہاڑ پر چڑھیں گے اور اس کے بعد نیپال کا سفر کریں گے جہاں وہ دنیا کی بلند ترین پہاڑی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کریں گے۔

فاطمہ اور ان کی ٹیم کو امید ہے کہ وہ افغانستان کے میرسمیر پہاڑ پر چڑھیں گے اور اس کے بعد نیپال کا سفر کریں گے (روئٹرز)

اٹھارہ سالہ افغان خاتون فاطمہ سلطانی صبح کے وقت کوہ پیمائی کرنے کے بعد ملک کے دارالحکومت کابل کے قریب واقع پہاڑی کی چوٹی کو غور سے دیکھتی ہیں اور اپنی اگلی مہم کے بارے میں سوچتی ہیں۔

فاطمہ سلطانی کی ٹیم میں نو نوجوان کوہ پیما شامل ہیں جن میں سے تین خواتین ہیں۔

انہیں امید ہے کہ وہ افغانستان کے میرسمیر پہاڑ پر چڑھیں گے اور اس کے بعد نیپال کا سفر کریں گے جہاں وہ دنیا کی بلند ترین پہاڑی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کریں گے۔

فاطمہ نے روئٹرز سے گفتگو میں کہا کہ ’میرا بنیادی مقصد دنیا کو دکھانا ہے کہ افغان خواتین مضبوط ہیں اور وہ مشکل ترین کام کر سکتی ہیں جو مرد کرتے ہیں۔ جب مجھے پتہ چلا کہ غیرملکی خواتین بلند ترین چوٹیاں فتح کرنے یہاں آتی ہیں تو میں نے سوچا کہ افغان خواتین ان چوٹیوں کو سر کیوں نہیں کر سکتیں؟‘

سلطانی نے اگست میں کرونا وائرس کی وبا کے دوران تمام عرصہ کوہ پیمائی جاری رکھی۔ انہوں نے شمالی افغانستان میں ہندوکش کے پہاڑی سلسلے میں واقع نوشخ کی 7492 میٹر بلند چوٹی سر کی اور ایسا کرنے والی دنیا کی کم عمر ترین خواتین کوہ پیما بن گئیں۔

لیکن جیسا کہ طالبان افغان حکومت کے ساتھ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن مذاکرات کر رہے ہیں، افغانستان میں بہت سی خواتین پریشان ہیں کہ عسکریت پسند گروپ رسمی سیاسی طریقوں سے اپنا اثرورسوخ استعمال کر سکتا ہے۔

انیس سو چھیانوے سے لے کر 2001 تک افغانستان میں طالبان کی حکومت کے دوران خواتین کے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگا دی گئی اور انہیں محرم کے بغیر گھر سے نکلنے سے روک دیا گیا۔

کوہ پیما خواتین کے گروپ کا کہنا ہے کہ اب صورت حال تبدیل ہو چکی ہے لیکن خواتین کو اب بھی شک ہے۔

فاطمہ کہتی ہیں کہ ’جب میں کھیلوں کی دنیا میں داخل ہوئی تو مجھے علم تھا کہ مستقبل میں کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مثال کے طور پر ایک مسئلہ یہ تھا کہ ہو سکتا ہے کہ طالبان خواتین کے کھیلوں میں حصہ لینے کو روکیں لیکن میں اب بھی مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں۔‘

جب فاطمہ کوہ پیمائی کی مشق نہیں کر رہی ہوتیں تو کابل میں اپنے والدین، چھوٹی بہن اور پالتو بلی کے ساتھ رہتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے والد نے کہا کہ وہ فاطمہ کی کامیابیوں پر خوشی مناتے رہیں گے۔ تاہم انہیں بیٹی کی سلامتی کے حوالے سے تشویش بھی ہے۔

فاطمہ کے والد عبدالواحد سلطانی نے کہا کہ ’مجھے اس حوالے سے تشویش ہے لیکن میں نے فاطمہ سے کہا ہے کہ تم جس کھیل میں حصہ لینا چاہتی ہو تمہیں آزادی ہے۔ حتیٰ کہ کوہ پیمائی بھی اور جتنا مجھ سے ہو سکا میں اس کی مدد کروں گا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ابھرتے ستارے