ایرانی سرحد کے قریب سیلابی ریلہ: ’گاڑی چھوڑ کر جان بچانا پڑی‘

حالیہ مون سون بارشوں کے دوران اسی علاقے کی ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں دو پہاڑوں کے درمیان تیزی سے بہتا سیلابی پانی ایرانی تیل سمگل کرنے والی نیلے رنگ کی زمباد گاڑیاں چھوٹے کھلونوں کی طرف بہتی دکھائی دے رہی ہیں۔

پانی سے نکالی جانے والی بعض گاڑیوں کی حالت اتنی خراب تھی کہ انہیں پہچاننا مشکل تھا (تصویر: دین محمد)

بلوچستان میں حالیہ مون سون بارشوں  سے جہاں متعدد گھروں اور فصلوں سمیت انسانی جانوں کو نقصان پہنچا، وہیں ایرانی سرحد سے کھانے پینے کا سامان اور ایندھن لانے والے بھی سیلابی ریلوں کی زد میں آئے، جن میں بعض کی گاڑیاں تباہ ہوئیں اور وہ خود بھی بچ نہ سکے۔

ضلع کیچ سے متصل عبدوئی کے سرحدی علاقہ سے زمباد نامی گاڑی میں علاقہ مکین ایران سے ایندھن اور کھانے، پینے کا سامان لانے کا کام کرتے ہیں جو آسان نہیں ہوتا، کیوں کہ یہاں پر پہاڑ اور کچے راستے ہیں۔ ان ڈرائیوروں کو کبھی شدید گرمی تو کبھی سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

حالیہ مون سون بارشوں کے دوران اسی علاقے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا کے ذریعے رواں ہفتے سامنے آئی جس میں دو پہاڑوں کے درمیان تیزی سے بہتا سیلابی پانی ایرانی تیل سمگل کرنے والی نیلے رنگ کی زمباد گاڑیاں چھوٹے کھلونوں کی طرف بہتی دکھائی دے رہی ہیں جبکہ ان کے ڈرائیور دور کھڑے بے بسی سے ان کو پانی میں ڈوبتے ابھرتے دیکھ رہے ہیں۔

اسی طرح ایک اور ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک گاڑی جو پانی سے نکلی ہے، اس کی حالت اتنی خراب ہے کہ اسے پہچاننا مشکل ہے۔

ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والے دین محمد بھی ایرانی سرحد سے سامان لانے کا کام کرتے ہیں۔ جولائی کے آخر میں مون سون بارشوں کے دوران ان کی گاڑیاں بھی پانی کی نظر ہو گئیں جبکہ وہ خود بڑی مشکل سے جان بچانے میں کامیاب ہو سکے۔

دین محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب ہم پہاڑوں کے درمیان جا رہے تھے تو ہماری گاڑی خراب ہو گئی، اس وقت بارش اور پانی وغیرہ نہیں تھا، جب اس کو ٹھیک کر رہے تھے تو اس دوران ہم نے دیکھا پانی آ رہا ہے، ہم نے گاڑی کو نکالنے کی کوشش کی مگر پانی کی رفتار دیکھ کر ہمیں گاڑی چھوڑ کر جان بچانا پڑی۔‘

’پانی تیزی سے بڑھتا چلا گیا جس میں میری اور میرے بھائی کی گاڑی ان بے رحم لہروں کی نظر ہو گئیں۔‘

دین محمد بتاتے ہیں کہ دونوں گاڑیوں میں 15، 15 ڈرم تیل تھا، جب کہ گاڑی کی قیمت تقریباً 17 لاکھ روپے ہے۔ ’دوسرے لوگوں کا بھی نقصان ہوا جبکہ کچھ لوگ بھی لہروں میں بہہ کر جان سے گئے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’یہ راستہ انتہائی کٹھن ہے۔ گاڑیوں کی زیادہ تعداد کے علاوہ ہمیں کبھی شدید گرمی اور کبھی اس طرح پانی کا سامنا رہتا ہے۔‘

’ہمیں تربت سے سرحد تک پہنچنے میں ایک دن لگتا ہے، جبکہ وہاں باری ملنے پر کبھی دو کبھی تین دن اور کبھی ہفتہ لگ جاتا ہے۔‘

اسی واقعے کے بارے میں جمال آسا نامی ایک اور ڈرائیور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم لوگ بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے، گاڑی کھڑی تھی کہ اس دوران ہم نے دیکھا بہت سارا پانی آ رہا ہے۔‘

’میں نے ہمت کر کے گاڑی کو سٹارٹ کیا، پانی گاڑی کے اوپر تک پہنچ چکا تھا، لیکن بہت کوشش کے بعد میں اسے نکالنے میں کامیاب رہا۔‘

جمال آسا بتاتے ہیں کہ ’جب میں اپنی گاڑی نکال رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ میرے پیچھے جو گاڑی تھی وہ کوشش کے باوجود نہ نکل سکی اور پانی اسے بہا کر لے گیا۔ اس وقت ہم چار ساتھی بیٹھے تھے، جن میں چار گاڑیاں بہہ گئیں۔‘ 

انہوں نے بتایا کہ ایک گاڑی کے ساتھ اس کا ڈرائیور بھی پانی میں بہہ گیا، جسے ہم پورا دن اور بہت مشکلوں کے بعد تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے۔

’پانی اتنا تیز اورغیر متوقع تھا کہ کسی کو محفوظ جگہ تک پہنچنے اور نکلنے کا موقع نہ مل سکا، بعد میں ہم نے دیکھا کہ بہت سی گاڑیاں بہہ کر آ رہی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جمال نے بتایا کہ ’شام سات بجے کا وقت تھا جب ہمیں پانی نے آگھیرا اور سب کو بہا کر لے گیا۔ اس کے ساتھ ایران کے ساتھ سرحد کی دوسری طرف بھی اسی طرح سیلابی ریلوں نے گاڑیوں کو نقصان پہنچایا۔‘

’جب ہم تربت آئے تو اس کے بعد بھی مزید اس طرح کے سیلابی ریلے آئے جنہوں نے مزید لوگوں کو بھی نقصان پہنچایا۔‘

سرحدی علاقوں کے مسائل سے واقفیت رکھنے والے دشتک زامران کے رہائشی صادق فتح کہتے ہیں کہ عبدوئی سرحدی پوائنٹ کے علاوہ تگران کور پانی کی گزرگاہ ہے، جہاں سے ایرانی تیل اور خوردنی سامان لانے کا کام کیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ حالیہ پانی تگران کور ( بلوچی میں پانی کی گزرگاہ کو کور کہتے ہیں) ایران میں پیرکور اور ایک دوسرے نہنگ کور میں پانی آنے سے ان گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔

صادق فتح نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت لاشوں اور متاثرہ گاڑیوں کو پانی سے نکالا۔

وہ بتاتے ہیں کہ اس سرحد راستے سے سوائے اتوار کے ہفتہ کے باقی دنوں میں روزانہ چھ سو گاڑیوں کو جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گذشتہ سال انتظامیہ نے ایرانی سرحد جانے والی 14 ہزار گاڑیوں کو رجسٹر کیا تھا۔

صادق نے بتایا کہ انتظامیہ کے پاس ایک لسٹ ہوتی ہے، جس میں ڈرائیور کا نام، ان کے والد کا نام، شناختی کارڈ نمبر، گاڑی کون سی ہے پک اپ زمباد وغیرہ اور اس کا ماڈل لکھا ہوتا ہے، اس کے تحت ان کو جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان