کیا فیض گھر واقعی بند ہو گیا ہے؟ 

لاہور میں فیض گھر کے حوالے سے قیاس آرائیاں تھیں کہ اسے ملکی معاشی حالات کی وجہ سے بند کر دیا گیا ہے، تاہم فیض فاؤنڈیشن کے سیکریٹری عدیل ہاشمی اس معاملے کی وضاحت کچھ یوں کرتے ہیں۔

فیض گھر میں بڑوں اور بچوں کے لیے بہت سی سرگرمیوں کا اہتمام ہوتا تھا(تصویر فیض گھر آفیشل فیس بک پیج)

لاہور میں گذشتہ 14 برس سے قائم فیض گھر کے حوالے سے میڈیا پر قیاس آرائیاں تھیں کہ اسے ملک کے معاشی حالات کے پیش نظر بند کر دیا گیا ہے۔ 

تاہم معروف شاعر فیض احمد فیض کے نواسے اور فیض فاؤنڈیشن کے سیکریٹری عدیل ہاشمی نے واضح کیا ہے کہ انہوں نے فیض گھر کو بند نہیں بلکہ موخر کیا ہے۔

’ہم نے یہ فیصلہ نہ خوشی خوشی کیا، نہ دل پر پتھر رکھ کے، آپ سمجھیں کہ کوئی دلچسپ کرکٹ میچ چل رہا ہے اور اس میں چائے یا کھانے کا وقفہ ہے۔

’نہ وہ میچ ختم ہوا ہے، نہ کرکٹ دنیا سے غائب ہوئی ہے۔ صرف بیچ میں کچھ وقفہ سا آیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ وقفہ بہت چھوٹا ہوگا۔‘ 

عدیل کے مطابق ماڈل ٹاؤن میں واقع فیض گھر کو تقریباً ایک ماہ قبل خالی کر دیا گیا تھا۔

’جب تک معیشت میں کچھ استحکام نہیں آتا تب تک ہم اس منصوبے کو موخر کر رہے ہیں، لیکن ہمیں معلوم ہے کہ کوئی نہ کوئی صورت بن جائے گی اور ہم اسے کسی اور بہتر جگہ پر دوبارہ شروع کر دیں گے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس دوران ہم ’فیض گھر بی یانڈ بارڈرز‘ آن لائن پلیٹ فارم پر کافی کام کر چکے ہیں جہاں فیض احمد فیض کا کام دستیاب ہو گا۔ 

عدیل کے مطابق اس وقفے کی دو وجوہات ہیں: ’ایک اس ملک میں روایت سی ہے کہ اچھی چیزوں کو بند کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ البتہ اصل وجہ یہ تھی کہ ہمیں ہر سال فنڈز کا مسئلہ تھا لیکن ہم کہیں نہ کہیں سے پورا کر لیا کرتے تھے۔

’ہمارا فوکس عام لوگ تھے جن کا تعلق مڈل یا لوئر مڈل کلاس سے تھا۔ ہم عوام الناس کے ساتھ کام کرتے تھے لیکن گذشتہ ایک برس میں اس ملک کے جو معاشی حالات بنے اس میں اس طبقے کے لیے اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنا بہت مشکل ہو گیا۔‘

انہوں نے کہا کہ معاشی بحران میں فنون لطیفہ سے جڑی سرگرمیوں کو اضافی سمجھا جاتا ہے اس لیے عوام ان سرگرمیوں کو بند کر دیتے ہیں۔

’بچوں کو ان سرگرمیوں کے لیے لانے لے جانے کے ذرائع مہنگے ہو گئے، فیس بھی بھاری لگتی ہے یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ایک برس سے فیض گھر آںے والوں کی تعداد بہت کم ہو رہی تھی۔ ‘

انہوں نے کہا چونکہ ان کا کوئی بڑا ادارہ نہیں لہذا وہ کارپوریٹ فنڈنگ لیتے ہیں اور نہ ہی غیر ملک فنڈنگ۔ ’ہمارے گنے چنے ساتھی ہیں جو تعاون کرتے ہیں فیض فاؤنڈیشن کو۔‘

انہوں نے کہا کہ جو ایک مرتبہ فیض گھر آتا ہے اس کا تعلق جڑ جاتا ہے۔ ’جب اس تعلق میں تھوڑا توقف آتا ہے تو دکھ تو ہوتا ہے اور لوگ گھبراتے بھی ہیں کہ شاید دوبارہ موقع نہ ملے۔۔۔ ہم لوگوں کو یہی کہہ رہے ہیں کہ وہ فکر نہ کریں جب تک ہم زندہ ہیں کوئی نہ کوئی کاوش تو کرتے رہیں گے۔‘

عدیل نے بتایا کہ گذشتہ ایک دو روز میں ایک دلچسپ بات یہ ہوئی کہ کچھ لوگوں نے ہمیں اپنے تعاون اور اپنی جگہوں کی پیش کش کی کہ فیض گھر وہاں کھول دیا جائے۔

’ان میں سے ایک دو آفرز بہت اچھی ہیں۔ ان لوگوں سے ہم آںے والے دنوں میں ملاقات کریں گے اور چیزوں کو حتمی شکل دیں گے اور جب دوبارہ فیض گھر کھولیں گے تو اس کا باقاعدہ اعلان کریں گے۔‘

فیض فاؤنڈیشن کیا ہے؟ 

عدیل ہاشمی نے بتایا کہ فیض فاؤنڈیشن ایک ٹرسٹ ہے جو فیض کے نام پر بنایا گیا۔ یہ فاؤنڈیشن ایک چھتری ہے جس کا ایک منصوبہ فیض گھر تھا اور دوسرا منصوبہ فیض فیسٹیول، ایک اور منصوبے کے تحت ہم ترقیاتی سیکٹر میں کام کرتے ہیں۔ 

عدیل کے مطابق 2008 اور 2009 میں فیض احمد فیض کے خاندان نے سوچا کہ ہمارے پاس ان کی بہت سی تصاویر ہیں، یاداشتیں ہیں، میڈلز، ان کے ہاتھ سے لکھی تحریریں، خطوط اور بہت کچھ ہے تو اس سب کو کہیں آویزاں (display) ہونا چاہیے تاکہ لوگ دیکھ سکیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہم نے ماڈل ٹاؤن لاہور میں ایک جگہ لے کر ایک منی عجائب گھر بنایا ہے۔ یہ صرف ایک عجائب گھر نہیں ہو سکتا بلکہ یہ ایک محبت بھری سانس لیتی جگہ ہونی چاہیے۔‘

عدیل کے مطابق: ’فیض گھر کے دو حصے تھے۔ ایک بڑوں اور دوسرا بچوں کے لیے۔ بڑوں کے لیے ہم ادبی نشستیں کرتے تھے، لیکچرز، کتابوں کی رونمائیاں، اوپن مائیک، نئے گلوکاروں کے لیے کلاسیکل گلوکاری کی کلاسیں ہوا کرتی تھیں، یوگا بھی کروایا جاتا تھا۔ یہ سب کچھ روزانہ ہوا کرتا تھا۔ اس سب کے لیے بہت مناسب سا معاوضہ ہوا کرتا تھا جو ہم انسٹرکٹر کو دے دیتے تھے۔‘

عدیل نے بات جاری رکھتے ہوئے بتایا: ’بچوں کے لیے بھی یہی سب کچھ تھا لیکن وہ مصوری بھی کرتے تھے، کنگ فو سیکھتے، پاٹ پوری کا کام، مٹی سے چیزیں بناتے تھے، روبوٹکس کرتے تھے اور اس کے علاہ یقیناً وہ تخلیقی لکھائی، سٹوری ٹیلنگ اور رقص بھی سیکھتے تھے۔‘

انہوں نے بتایا کہ فیض گھر کے موخر ہونے کا اثر فیض فیسٹیول پر نہیں ہوگا۔ ’جب تک ہمارے خاندان کی اور فیض صاحب کے چاہنے والوں کی سانس میں سانس ہے، دل دھڑک رہا ہے، نبض چل رہی ہے تب تک فیض فیسٹیول چلتا رہے گا۔‘

عدیل کے مطابق حکومت نے کہا ہے کہ ہم فیض فیسٹیول کا دائرہ بڑھائیں اور اسے اسلام آباد لے کر آئیں۔ ’ہم جلد حکومت کے اشتراک سے اسلام آباد میں فیض فیسٹیول کریں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ انڈیا کے ادبی پلیٹ فارم ریختہ فاؤنڈیشن کے ساتھ بھی بات چیت ہو گئی ہے اور اب ریختہ اور فیض فاؤنڈیشن انڈو پاکستان کا ایک بہت بڑا فیسٹیول اس سال کے آخر میں یا اگلے سال کے ابتدا میں دبئی میں کریں گے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ادب