بی ایل اے: پاکستان اور بیرون ملک بھرتی کی حکمت عملی

بی ایل اے کے دونوں دھڑے لاپتہ افراد کے معاملے کو بھرتی کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ بی ایل اے ایسے خاندانوں کو پیسوں کی تنگی کے حوالے سے مدد، طاقت اور ریاست سے بدلہ لینے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

سکیورٹی اہلکار دو مارچ 2022 کو کوئٹہ کے ایک بازار میں ایک دھماکے کے مقام پر کھڑے ہیں، جس میں تین افراد نے جان کھوئی جبکہن متعدد زخمی ہوئے تھے (اے ایف پی)

 

بلوچ لیبریشن آرمی (بی ایل اے) کے دونوں دھڑے پاکستانی ریاست کے خلاف دیگر بلوچ باغی گروپوں کے مقابلے میں زیادہ سرگرم ہیں، مثال کے طور پر بی ایل اے زیب دھڑے نے بلوچ شورش میں اپنے خودکش سکواڈ، مجید بریگیڈ کے ذریعے خودکش حملوں کا رجحان شروع کیا۔

جبکہ حیربیار مری کا (آزاد) دھڑا چھوٹے اور مہلک حملے کرتا ہے جس میں گذشتہ سال رخشان ڈویژن کے ہیڈکوارٹر خاران میں بلوچستان ہائی کورٹ اور وفاقی شریعت کورٹ کے سابق چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی کا ان کے گھر کے قریب ہی مسجد میں گولیاں مار کے قتل شامل ہے۔

اطلاعات کے مطابق بی ایل اے کے دونوں دھڑے بلوچستان کے اندر فعال طور پر بھرتی کر رہے ہیں اور بعض صورتوں میں خلیج اور یورپ میں بھی بلوچ تارکین وطن تک پہنچ جاتے ہیں۔ 

ایک محتاط اندازہ کے مطابق بی ایل اے (جئیند) بشیر زیب دھڑے کی افرادی قوت دو ہزار سے پندرہ سو جنگجوؤں کے درمیان ہے جبکہ بی ایل اے (آزاد) حیربیار دھڑے کی تعداد ایک ہزار سے بارہ سو عسکریت پسندوں پر مشتمل ہے۔

دونوں دھڑوں کی بھرتی کی حکمت عملی کم و بیش ایک جیسی ہے۔ دونوں پاکستان میں بلوچ آبادی والے علاقوں، خلیجی ممالک اور یورپ میں بلوچ علیحدگی پسندوں کی بھرتی پر انحصار کرتے ہیں اور کچھ حد تک امریکہ میں پناہ لینے والے تارکین بلوچوں کو سوشل میڈیا پر اپنی پروپیگینڈا کارروائیاں چلانے کے لیے۔

بی ایل اے کے حمایتی تارکین وطن اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کرکے بلوچستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں، سیاسی، سماجی اور اقتصادی محرومیوں کے ساتھ ساتھ علیحدہ وطن کے مطالبات کرتے ہیں۔

بی ایل اے کے دونوں دھڑے لاپتہ افراد کے معاملے کو بھرتی کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ بی ایل اے ایسے خاندانوں کو پیسوں کی تنگی کے حوالے سے مدد، طاقت اور ریاست سے بدلہ لینے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ لاپتہ افراد کے معاملے کی وجہ سے پاکستانی ریاست کے خلاف بلوچ کمیونٹی کا دکھ بلوچوں کی نئی نسل کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔

یہ ایک بہت ہی طاقتور ہتھیار ہے اور اس نے بی ایل اے کے دونوں دھڑوں میں بھرتی کے عمل کو موثر بنایا ہے۔

بی ایل اے بشیر زیب دھڑے میں تعلیم یافتہ بلوچ نوجوان بھی شامل ہیں۔ صوبہ پنجاب اور سندھ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے جانے والے بلوچ نوجوان سیاسی، سماجی اور معاشی حالات اور تعلیمی اداروں میں نسل پرستانہ رویے کا سامنا کرنے کے سبب زیادہ شعور یافتہ ہیں اور نسبتاً محرومی کا احساس زیادہ رکھتے ہیں۔

وہ اپنی سماجی و معاشی صورت حال کا موازنہ پنجاب اور سندھ میں رہنے والوں سے کرتے ہیں۔ جب یہ پڑھے لکھے بلوچ نوجوان اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد بلوچستان واپس آتے ہیں تو انہیں صوبے میں مناسب ملازمتیں نہیں ملتی ہیں۔ 

معدنیات سے مالا مال ہونے کے باوجود بلوچستان میں مبینہ ریاستی زیادتیوں اور روزگار کے مواقع کی کمی سے مایوس ہو کر یہ ریاست کے خلاف بندوق اٹھاتے ہیں۔

بی ایل اے کے دونوں دھڑوں میں  بلوچ نوجوانوں کی بھرتی کی ایک اور وجہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی وجہ سے بلوچستان میں بڑھتے ہوئے چین مخالف جذبات ہیں۔

بلوچ نوجوانوں کا خیال ہے کہ اس منصوبے سے ان کے وسائل کو لوٹا جا رہا ہے اور ان کی جگہ ملازمتوں پر صوبے سے باہر کے لوگوں کو بھرتی کیا جا رہا ہے۔ حکومت پاکستان ان الزامات کو رد کرتی ہے۔

بی ایل اے کے دھڑے محروم نوجوان بلوچوں کو بھرتی کرنے کے لیے چین مخالف جذبات اور چین کو ایک نوآبادیاتی طاقت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ بشیر زیب نے اپنی متعدد ویڈیوز میں چین کو خبردار کیا ہے کہ وہ بلوچستان سے اپنی سرمایہ کاری واپس لے ورنہ مزید حملوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہے۔

ان حملوں میں قابل ذکر کراچی میں چینی قونصلیٹ، پاکستان سٹاک ایکسچینج ، دالبندین بس، پرل کانٹی نینٹل ہوٹل گوادر جیسے حملے شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بی ایل اے زیب دھڑے نے بلوچ خواتین کو بھی اپنے کیڈر میں بھرتی کیا ہے۔  شاری بلوچ، سمیہ قلندرانی کے کیسز بتاتے ہیں کہ اب خواتین  عسکریت پسندی میں شامل ہو رہی ہیں۔

بی ایل اے (آزاد) مری دھڑا بھی اپنے قبائلی رابطوں اور نیٹ ورکس، اور اسلم اچھو کا دھڑا الگ ہونے کے بعد مکران اور رخشان سے سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے پڑھے لکھے کمانڈروں کے ذریعے مضبوط بیانیہ پیدا کر رہا ہے۔ البتہ بی ایل اے (آزاد) مری کی افرادی قوت کا بڑا حصہ مری قبیلے سے ہے۔ 

 اگرچہ قبائلی نیٹ ورک بھرتیاں حاصل کرنے کا ایک کمزور ذریعہ بن چکے ہیں، لیکن قبائلی وابستگی پر مبنی تنظیموں کے لیے وہ شمولیت کا ایک ذریعہ ہیں۔

ایک اور مشترکہ حکمت عملی جو تمام بلوچ علیحدگی پسند دھڑوں میں مشترک ہے وہ ریاست کی بلوچوں کے مسائل سے بظاہر بیگانگی اور ان کے حل سے جڑے مصنوعی بلوچ سیاست دانوں کے ذاتی مفادات ہیں۔

بلوچ عسکریت پسندی میں بھرتی  کا عمل بہت متحرک ہے اور تیز رفتاری سے جاری ہے۔  مزید برآں، بھرتی کے لیے سوشل میڈیا کا کردار بھی اہم ہے۔ اس نے بھرتی کے روایتی ذرائع میں حصہ لینے کے لیے شمولیت کی رکاوٹ کو کم کر دیا ہے۔

بلوچستان کے مسئلے کو سمجھنے اور دو دہائیوں پر محیط مسلح جہدوجہد اور صوبے میں امن و امان کے  مستقبل حل کے لیے ضروری ہے کہ بلوچستان کے سیاسی رہنماؤں اور جمہوری سیاست کی حوصلہ افزائی کی جائے جس کے ساتھ ساتھ نوجوان کو تعلیم کے بہتر موقع فراہم کرنے اور سی پیک اور ریکوڈک جیسے بڑے منصوبوں میں ان کو بڑی تعداد میں ملازمتیں دینے سے ایک پرفضا ماحول پیدا ہونے کے ممکنات بڑھ جائیں گے۔


نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات اور تجزیے پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ کالم نگار سنگاپور میں ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں ریسرچ فیلو ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ