’نہ گاڑی مل رہی ہے نہ پیسے‘: پروٹان بک کرانے والوں کا شکوہ

پروٹان سے اس بارے میں جب رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک قیمتوں میں اضافے کی وجہ ہے تو وہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کو دیکھ کر بڑھائی گئی ہیں۔

پروٹان ایکس 70 12 دسمبر  2018 کو کوالالمپور میں لانچ کی گئی (اے یف پی)

گاڑیاں بنانے والی ملائیشین کمپنی پروٹان کی صوبہ خیبر پختوخوا میں بکنگ کروانے والے درجنوں افراد کا کہنا ہے کہ انہیں ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی نہ تو گاڑی ملی ہے اور نہ ہی پیسے واپس دیے جا رہے ہیں۔

بکنگ کروانے والے افراد کا کہنا ہے کہ انہوں نے پروٹان ایکس 70 نامی ماڈل کی بکنگ 2021 میں کروائی تھی تاہم تاحال انہیں گاڑی یا پیسوں کا انتظار ہی کرنا پڑ رہا ہے۔

ان افراد میں پشاور کے شہری ڈاکٹر یوسفزئی بھی ہیں جنہوں نے پروٹان کے پشاور میں شو روم سے ایکس 70 کی جنوری 2022 میں نو لاکھ روپے سے بکنگ کروائی تھی۔

ڈاکٹر یوسفزئی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت گاڑی کی قیمت 49 لاکھ روپے تھی اور بکنگ کے دوران ان کو بتایا گیا تھا کہ گاڑی گذشتہ سال اکتوبر میں ڈیلیور کر دی جائے گی۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اکتوبر 2022 میں بھی گاڑی تو ڈیلیور نہیں ہوئی مگر اس کی قیمت 49 لاکھ سے بڑھا کر 72 لاکھ کر دی گئی۔ ساتھ ہی مزید پیسے جمع کروانے کا بھی کہا گیا۔‘

’میں نے گاڑی کی کل قیمت 72 لاکھ ادا کی اور گاڑی کی ڈیلیوری کے لیے انتظار کر رہا تھا مگر بکنگ سے اب تک تقریباً 18 ماہ گزر جانے کے بعد بھی تاحال ہمیں گاڑی نہیں ملی ہے۔‘

ڈاکٹر یوسفزئی کے علاوہ بھی بہت سے ایسے افراد ہیں جنہوں نے پروٹان کے مختلف ماڈل کی گاڑیوں کے لیے بکنگ تو کروائی، مگر ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھی گاڑیاں ان کو نہیں ملی ہیں۔

 پشاور سے تعلق رکھنے والے امیر خان نے پروٹان کی دو ایکس 70 ماڈل کی گاڑیوں کے لیے بکنگ کرو رکھی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے مارچ 2021 میں دو گاڑیوں کے لیے بکنگ کروائی تھی اور ستمبر 2022 میں ایک گاڑی کے ری فنڈ یعنی پیسے واپس کرنے کی درخواست کی تھی۔

امیر خان کہتے ہیں کہ  انہوں نے نومبر 2022 میں ایک گاڑی کی کل قیمت جمع کروائی تھی۔ ’مجھے کہا گیا تھا کہ 50 دن تک گاڑی آپ کو ڈیلیور ہو جائے گی لیکن ابھی تقریباً نو ماہ گزر گئے ہیں مگر گاڑی ابھی تک نہیں ملی ہے۔‘

’جس گاڑی کے ری فنڈ کے لیے درخواست دی تھی اس کا ایک چیک مجھے دیا گیا تھا جو اگست 2023 کا تھا لیکن ابھی جب میں نے بینک سے رابطہ کیا تو بینک والوں کا کہنا ہے کہ جو چیک دیا گیا، اس اکاؤنٹ میں پیسے نہیں ہیں۔‘

ڈاکٹر یوسفزئی کے مطابق ’ہم نے 49 لاکھ کے بجائے 72 لاکھ دا کیے ہیں مگر پیسے بھی ہمارے پھنسے ہوئے ہیں اور گاڑی بھی ڈیلیور نہیں کی جا رہی ہے، جو بہت زیادتی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ہم پروٹان والوں سے رابطہ کر کر کے تھک گئے ہیں۔ ہمیں یہی کہا جا رہا ہے کہ آج ہو جائے گی اور کل ہو جائے گی، لیکن گاڑی ڈیلیور نہیں ہورہی۔ ہمیں ایل سیز بند ہونے کا بتا رہے ہیں حالانکہ ایل سیز اب بند نہیں ہیں۔‘

پروٹان کا کیا کہنا ہے؟

پروٹان سے اس بارے میں جب رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک قیمتوں میں اضافے کی وجہ ہے تو وہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کو دیکھ کر بڑھائی گئی ہیں۔

پشاور میں پروٹان خیبر موٹرز کے مینیجر نعمان خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’قیمتوں میں اضافے کی وجہ ہر کسی کو معلوم ہے۔ جس وقت گاڑی کی بکنگ ہو رہی تھی تو ڈالر 156 کے قریب تھا جبکہ بعد میں اچانک ڈالر 200 روپے سے اوپر چلا گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نعمان خان کہتے ہیں کہ ’ہم نے گاڑیاں ملائیشیا سے منگوانی تھیں اور کرونا وبا کی وجہ سے ملائیشیا میں دو سال تک لاک ڈاؤن تھا جبکہ بعد میں ظاہری بات ہے، رقم ڈالرز میں ہی ادا کرنی تھی تو گاڑیوں کی قیمتیں اوپر چلی گئیں۔‘

گاڑیوں کی ڈیلیوری میں تاخیر کے حوالے سے نعمان خان نے بتایا کہ ’ایک وجہ تو ملائیشیا میں لاک ڈاؤن تھی جس وجہ سے سی کے ڈی کٹس یعنی گاڑیوں کے سامان منگوانے میں مشکلات تھیں جس سے گاڑیوں کی ڈیلیوری بھی متاثر ہوئی ہے۔‘

’اس کے بعد نعمان خان کے مطابق حکومت پاکستان نے ایل سیز (ایل سی وہ دستاویز ہوتا ہے جو کوئی بھی کمپنی بیرون ملک سے چیزیں منگوانے کے لیے سٹیٹ بینک کو جمع کرواتی ہے، اور سٹیٹ بینک پراڈکٹس منگوانے کی اجازت دیتی ہے) بند ہوگئی، تو اس وجہ سے دوبارہ گاڑیوں کی ڈیلیوری میں تاخیر ہوئی۔‘

نعمان خان کے مطابق ’ہمارے پاس تقریباً چھ ہزار لوگوں نے بکنگ کروائی ہے، اور ہماری ڈیلیوری کا وقت بکنگ کے بعد 30 سے 45 دن ہے لیکن ان تمام وجوہات کی بنا پر ڈیلیوری میں تاخیر ہوئی۔ اب کوشش ہے کہ رواں ماہ کے آخر تک گاڑیاں کسٹمرز کو ڈیلیور کر دی جائیں۔‘

رقوم کی واپس کے معاملے پر نعمان خان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ری فنڈ میں کسٹمرز کو خسارے سے بچانے کے لیے، ان سے ایک روپیہ بھی نہ کاٹنے کا فیصلہ کیا اور ہم وہی رقم واپس کرتے جو کسٹمر نے جمع کروائی ہے جبکہ باقی کمپنیاں تقریباً دو فیصد تک کٹوتی کرتی ہیں۔‘

’ری فنڈ بھی ہم ایک ماہ سے 45 دن میں کرتے ہیں لیکن ظاہری بات ہے کہ اتنے سارے کسٹمرز ایک ساتھ جب ری فنڈ کے لیے اپلائی کریں گے، تو کمپنی کو منیج کرنے میں وقت لگتا ہے۔ کسٹمرز کو وقت پر ری فنڈ کرنے کے لیے اب ری فنڈ کا دورانیہ چار سے چھ ماہ کر دیا گیا ہے۔‘

پروٹان

پروٹان مالے زبان کے لفظ ’پیروساہان آٹوموبیل نیشنل‘ یا نیشنل آٹوموبیل کمپنی سے نکلا ہے اور یہ گاریاں بنانے والی ملائیشیا کی سرکاری کمپنی ہے جس کی بنیاد ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد نے رکھی تھی۔

 پاکستان میں الحاج گروپ کے اشتراک سے پروٹان نے گاڑیوں کا پلانٹ لگایا ہے۔ الحاج گروپ پروٹان کے علاوہ فا موٹرز اور دیگر مختلف کمپینوں میں بھی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔

 پروٹان گاڑیاں پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش، برمودا، برونائی، مصر، عراق، اردن، کینیا، نیپال، سری لنکا، جنوبی افریقہ سمیت زمبابوے میں موجود ہیں۔ پروٹان کے مینوفکرچنگ پلانٹس پاکستان، کینیا، نیپال اور سری لنکا میں ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان