نگران حکومت کے دوران ڈالر کی قیمت میں مزید اضافہ متوقع: ماہرین

پاکستان میں نگران حکومت کے دوسرے روز پاکستانی روپے کی قدر میں گراوٹ دیکھی گئی اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 300 روپے سے بڑھ گئی۔

19 جولائی 2022 کی اس تصویر میں ایک کرنسی ڈیلر کراچی میں امریکی ڈالر کے نوٹ گن رہا ہے(فائل فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان میں نگران حکومت کے قیام کے دوسرے روز پاکستانی روپے کی قدر میں گراوٹ دیکھی گئی اور امریکی ڈالر کی قیمت اوپن مارکیٹ میں 300 روپے سے بڑھ گئی۔

جبکہ انٹربینک میں بھی ڈالر کی قیمت گذشتہ روز کے نسبت چار روپے کے اضافے کے ساتھ  292 روپے 50 پیسے ہو گئی۔

سوموار کو کاروباری دن کے اختتام پر انٹر بینک میں ڈالر 288 روپے 49 پیسے اور اوپن مارکیٹ میں 297 روپے پر بند ہوا تھا۔

پاکستان میں جاری معاشی بحران اور ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافے کے بعد گذشتہ مہینے جولائی کے دوسرے ہفتے میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے پاکستان کے لیے تین ارب ڈالرز قرض منظوری دینے اور اس میں سے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی قسط پاکستان کو جاری کرنے کے بعد روپے کی قیمت مستحکم ہوگئی تھی۔

اس صورت حال میں ایک دن ڈالر کی قیمت بڑی کمی کے ساتھ 274 روپے تک پہنچی تھی مگر بعد میں بدتریج اضافہ دیکھا گیا۔

نگران حکومت کے قیام کے دوسرے روز ڈالر کی قیمت میں اچانک اضافے کے ڈالر کی قیمت انٹر بینک میں تقریباً 293 روپے ہو گئی ہے۔

کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جزل سیکرٹری ظفر پراچہ کے مطابق ’منتخب حکومت کے آئینی طور پر تحلیل ہونے کے بعد نگران حکومت کے آنے کے بعد ڈالر کی قیمت میں اضافے کا پہلے سے امکان تھا اور ڈالرکی قیمت میں مزید اضافے کا بھی امکان ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ظفر پراچہ نے کہا کہ ’ڈالر کی قیمت میں اضافہ پہلے سے متوقہ تھا۔ گذشتہ حکومت کی پالیسیوں کے باعث امکان تھا کہ نگران حکومت کے دوران ڈالر کی قیمت بڑھے گی اورامکان ہے آنے والے دنوں میں مزید اضافہ ہو گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’گذشتہ حکومت نے مصنوعی طریقے سے ڈالر کی قیمت کو کم رکھا ہوا تھا اور جیسے حکومت کی آئینی مدت ختم ہوئی اور نگران حکومت آئی تو ڈالر اپنی فطری قیمت پر آ گیا۔ جس کی کئی وجوہات ہیں۔‘

ان کے مطابق ’گذشتہ مہینے بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجے ترسیلات زر میں 20 فیصد کمی ہوئی ہے۔ سابقہ حکومت کی ڈالر کی خرید و فروخت پر سخت پالیسی کے باعث ڈالر ایکسچینج کمپنیوں کے بجائے بلیک مارکیٹ میں چلا گیا۔ جس کو سابق حکومت کسی طرح چلا رہی تھی، مگر حکومت جانے کے بعد قیمت میں اضافہ ہو گیا۔‘

ظفر پراچہ کے مطابق ’اس وقت ایکسچینج کمپنیوں کا کاروبار کل حجم کا 10 فیصد ہی بچا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بقول ظفر پراچہ: ’آئی ایم ایف کا مسلسل پریشر ہے کہ امپورٹس کھولی جائیں۔ جب ہمارے پاس ڈالر ہی نہیں تو ایسے میں امپورٹ کھولنے سے ڈالر کی قیمت میں مزید اضافہ متوقہ ہے۔‘

ظفر پراچہ کے ’مطابق ملک میں عام انتخابات تاخیر سے ہونے کی افواہوں اور سیاسی غیر یقینی بھی ڈالر کی قیمت میں اضافے کاباعث ہے۔‘

کراچی میں مالیاتی امور کے صحافی اور تجزیہ نگار تنویر ملک کے مطابق ’نگران حکومت آنے کے بعد ڈالر کی قیمت میں اضافہ متوقہ تھا۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے تنویر ملک نے کہا  کہ ’ہفتہ، اتوار اور جشن آزادی کی تعطیلات کے دوران کچھ امپورٹ ادائیگیاں باقی رہی ہوں گی جن کی ادائیگی کرنی تھی۔ اس لیے جیسے ہی منگل کو مارکیٹ کھلی تو ڈالر کی قیمت میں اچانک اضافہ دیکھا گیا۔ امپورٹ ادائیگی کا بھی پریشر ہے۔ جو ایک وجہ ہے۔‘

ان کے مطابق ’نگران حکومت کے دوران ایکسیچنج ریٹ اور کرنسی مارکیٹ، فری مارکیٹ ہے اس لیے بھی ڈالر اپنی اصلی قیمت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی بھی شرط تھی کہ ڈالر اور روپے کی قیمت کے درمیاں شرع مبادلہ کو رکھنا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ حکومت مصنوعی طریقے سے ریٹ کو قابو کیا ہوا تھا، جو اب نگران حکومت کے دوران قیمت بڑھ گئی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت