ہم ڈرائنگ روم کی سیاست نہیں کریں گے: پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں 19 اگست کو پی ٹی آئی کے نئے دھڑے پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین کی جانب سے منعقد ہونے والے پہلے جلسے کے حوالے سے پارٹی سیکرٹری اطلاعات ضیا اللہ بنگش کا کہنا ہے کہ ’ہم نے گالم گلوچ کی سیاست ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں 19 اگست 2023  کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے نئے دھڑے پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین (پی ٹی آئی-پی) کی جانب سے منعقد ہونے والا پہلا جلسہ (انڈپینڈنٹ اردو)

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں 19 اگست کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے نئے دھڑے پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین (پی ٹی آئی-پی) کی جانب سے منعقد ہونے والے پہلے جلسے کے حوالے سے پارٹی ترجمان ضیا اللہ بنگش کا کہنا ہے کہ ’ہم نے گالم گلوچ کی سیاست ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہمارا منشور بہت سادہ ہے، ہم نے وہی باتیں لکھی ہیں جو ہم عملی طور پر پوری کرسکتے ہیں۔ ہم ڈرائنگ روم کی سیاست نہیں کریں گے، بلکہ میدان میں اتریں گے اور یہی اصل سیاست ہے۔ ہم نے گالم گلوچ کی سیاست کو ختم کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے اور اسی سبب تمام ساتھیوں کو کسی بھی سیاسی جماعت کے کسی کارکن یا لیڈر کے خلاف بدزبانی سے منع کیا ہے۔‘

دوسری جانب صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں 19 اگست کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے نئے دھڑے پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین (پی ٹی آئی-پی) کی جانب سے منعقد ہونے والے پہلے جلسے کے حوالے سے متعدد تبصرے جاری ہیں۔

بعض مبصرین اس کو ’کامیاب‘ تو بعض ’ناکام‘ جلسہ قرار دے رہے ہیں جب کہ اس نئی سیاسی جماعت کی ’سیاسی سمت اور درپردہ مقاصد‘ پر بھی بحث کی جا رہی ہے۔

گذشتہ شام منقعد ہونے والے اس جلسے کے حوالے سے بعض ایسی خبریں بھی آ رہی ہیں کہ شرکا کی ایک بڑی تعداد جلسہ کے دوران ہی عمران خان کے خلاف باتوں کے سبب برہم ہوکر واپس چلی گئی، جس کے باعث سیاسی جماعت کے چیئرمین پرویز خٹک کو اپنی تقریر مختصر کرنا پڑی۔

تاہم پارٹی سیکرٹری اطلاعات کے مطابق ’یہ ایک کامیاب جلسہ تھا جو کہ رات ساڑھے دس بجے تک جاری رہا اور کسی بھی سیاسی جماعت کے کسی لیڈر کے خلاف بدزبانی نہیں کی گئی۔‘

ضلع نوشہرہ سٹی میں منعقد ہونے والے اس جلسے میں سابق وزیر اعلیٰ محمود خان سمیت پی ٹی آئی کے کئی دیگر اراکین صوبائی اسمبلی، وزرا و مشیروں نے شرکت کی۔

پی ٹی آئی-پی کے نئے مرکزی سیکرٹری اطلاعات اور پی ٹی آئی کے سابق مشیر سائنس وٹیکنالوجی ضیااللہ بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 19 اگست کے جلسے کا مقصد  جماعت کے منشور ’امن، ترقی، خوشحالی‘ کو عوام کے سامنے رکھنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے کُل 11 مزید جلسے صوبے کے طول وعرض میں منعقد کیے جائیں گے۔‘

’ہم نے 12 ہزار کرسیاں لگوائی تھیں اور خیال کررہے تھے کہ تقریباً 30 ہزار لوگ آئیں گے، لیکن ہماری سوچ کے خلاف 35 ہزار سے زائد لوگ جلسے میں شریک ہوئے۔ جلسے کےآخر میں پرویز خٹک نے گیٹ پر کھڑے ہو کر خود شرکا کا شکریہ ادا کیا۔‘

انہوں نے نئی سیاسی جماعت کے نام پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ چونکہ ان کے ہم خیال ساتھی کسی دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کرنا چاہ رہے تھے، لہذا پی ٹی آئی میں ایک نیا دھڑا انہیں قابل قبول تھا۔

ضیااللہ بنگش نے اس سوال کا بھی جواب دیا کہ جن لوگوں میں کنفیوژن پائی جارہی ہے کہ ’پی کے‘ یعنی پرویز خٹک اب بھی ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ کیوں منسلک ہیں۔

’دراصل ان کا یہ اکاؤنٹ پی ٹی آئی ٹیم چلاتی تھی۔ اور اس کا اختیار اب بھی ان کے پاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت جلد پی کے کا ایک نیا ٹوئٹر اکاؤنٹ بنا دیا جائے گا۔‘

انہوں نے پی ٹی آئی کے ساتھ اپنی رفاقت ختم کرنے کی وجہ بھی بیان کی اور کہا کہ پی ٹی آئی کے اندر کچھ عہدیداران غلط رپورٹنگ کرتے تھے، اور باوجود ان کی محنت کے انہیں برطرف کردیا گیا۔

’میں باوجود عہدے سے برطرفی کے، زمان پارک میں چالیس دن جاری جنگ میں بھی عمران خان کو سپورٹ کرتے ہوئے پیش پیش رہا لیکن جب بات پی ٹی آئی بمقابلہ ریاست آئی تو خیرباد کہنا پڑا۔ بطور سیاستدان ہمیں سیاست جاری رکھنی ہوتی ہے اپنے حلقے اور ملک کی خاطر۔‘

دوسری جانب خیبر پختونخوا کی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی-پی نہ تو صوبائی سطح پر کسی جماعت کے لیے خطرہ ہے اور نہ قومی سطح پر کوئی کامیابی حاصل کرسکے گی۔

خیبر پختونخوا کے صحافی عرفان خان نے پی ٹی آئی- پی کے پہلے جلسے سے متعلق اپنا تجزیہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’لوگوں کی بڑی تعداد جلسے میں ضرور شریک ہوئی ہو گی تاہم یہ دعوی کہ  یہ ایک بہت بڑا اور کامیاب جلسہ ہے اور یہ پارٹی خیبر پختونخوا کی سیاسی اور پارلیمانی تاریخ بدل کر رکھ دے گی، کچھ زیادہ درست نہیں ہے۔‘

انہوں نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں پہلے سے موجود بڑی سیاسی جماعتوں کے سامنے اس نئی سیاسی جماعت کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کے ووٹ خراب کرسکے۔

’بظاہر لگ یوں رہا ہے کہ پرویز خٹک کی پارٹی پی ٹی آئی کے فالوروز ختم یا کم کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔ کیونکہ اس پارٹی میں نہ تو جے یوآئی،  نہ اے این پی نہ جماعت اسلامی اور نہ کسی اور جماعت کے لوگ آئیں گے۔‘

’علاوہ ازیں گذشتہ روز کے جلسے سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ایک کثیر تعداد کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ جلسے میں شرکت کرنے تو گئے لیکن ان کا ووٹ پی ٹی آئی کا ہوگا۔ اسی طرح حالیہ تحصیل متھرا میں پی ٹی آئی کی جیت بھی اس کا ایک عملی ثبوت ہے۔‘

’پرویز خٹک حلقے کی بنیاد پر سیاست کرتے اور آگے بڑھتے ہیں‘

جامعہ پشاور میں ایریا سٹڈی سنٹر کے سابق ڈائریکٹر ڈاکر سرفراز خان نے پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کے جلسے کو کامیاب قرار دیتے ہوئے جواز پیش کیا کہ ضلع نوشہرہ میں کوئی دوسری جماعت اتنا بڑا جلسہ نہیں کرسکتی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اگر یہ تعداد 12 ہزار بھی تھی تو یہ ایک سائزایبل جلسہ تھا۔ کیونکہ اس ضلعے میں کوئی دوسری جماعت اتنی تعداد اکٹھی نہیں کر سکتی۔  پرویز خٹک حلقے کی بنیاد پر سیاست کرنے والے سیاستدان ہیں۔ ان کے لیے دس 12 ہزار لوگ اکھٹے کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔‘

انہوں نے پرویز خٹک کو ایک روایتی سیاستدان قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’وہ ہمیشہ حلقے کی بنیاد پر سیاست کرتے رہے ہیں اور پھر وہاں سے ووٹ لے کر جو بھی پارٹی اقتدار میں آتی ہے اس میں شمولیت اختیار کر لیتے ہیں، اسی لیے وہ اپنی سیاست کو ماڈریٹ رکھتے ہیں۔ ان میں بے انتہا سیاسی لچک ہے، اسی لیے وہ ماضی میں تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ رہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ پرویز خٹک کی اسی نیوٹرل اور ماڈریٹ سیاست کی وجہ سے انہیں ٹربل شوٹنگ کا کام بھی سونپا جاتا رہا ہے۔

‘وہ عمران خان کے بھی ٹربل شوٹر تھے۔ لیکن عمران خان جان گئے تھے کہ وہ پارٹی کے کندھوں پر آگے جانا چاہتے ہیں اور اسی وجہ سے دوبارہ انہیں وزیر اعلی کا عہدہ نہیں دیا۔‘

سرفراز خان نے کہا کہ آئندہ انتخابات میں نوشہرہ کا میدان پرویز خٹک ہی جیتے گا اور اپنی سیاسی بصیرت کی وجہ سے وہ اب بھی اقتدار میں ’اِن‘ رہیں گے۔ علاوہ ازیں انہوں نے پی ٹی آئی-پی اور استحکام پاکستان دونوں میں اتحاد کا امکان بھی ظاہر کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست