عوام سے ہر وقت رابطے میں رہنے والے پرویز خٹک کا نیا سیاسی سفر

اس سال یکم جون کو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کی غرض سے جانے کے چند گھنٹوں بعد پرویز خٹک نے جماعت کے تمام عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔

خیبر پختون خوا کے سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے آخر کار عمران خان سے راہیں جدا کرتے ہوئے نئی سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان کر دیا (پرویز خٹک فیس بک)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اہم رہنما اور سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے آخر کار سابق وزیراعظم عمران خان سے راہیں جدا کرتے ہوئے پی ٹی آئی پارلیمینٹیرینز کے نام سے پیر کو نئی سیاسی جماعت قائم کر لی ہے۔

خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے پرویز خٹک پاکستان تحریک انصاف کے اہم رہنما ہونے کے علاوہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے۔

پاکستان تحریک انصاف میں ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 2013 کے عام انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کو خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کا موقع ملا تو وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے عمران خان کی نظرِ نوشہرہ کے علاقے مانکی شریف سے تعلق رکھنے والے نحیف سیاست دان پرویز خٹک پر پڑی۔

البتہ تجزیہ کاروں کے خیال میں صوبائی وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے ضلع صوابی سے تعلق رکھنے والے اسد قیصر (جنہیں بعد میں سپیکر قومی اسمبلی بنایا گیا) پر پرویز خٹک کو ترجیح دینے کی وجہ 2013 کے انتخابات میں صوبے میں پی ٹی آئی کی واضح فتح کے پیچھے پرویز خٹک کی دن رات کی محنت، سیاسی سوجھ بوجھ اور بے مثال رابطہ مہم تھی۔

پی ٹی آئی پر رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کے مطابق شاہ محمود قریشی اور اسد قیصر کے علاوہ پرویز خٹک کا شمار پی ٹی آئی کے ان چند رہنماؤں میں ہوتا تھا جو عمران خان سے براہ راست رابطہ کر سکتے تھے۔

تحریک انصاف میں پرویز خٹک کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ سال عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے نئی بننے والی حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ بات چیت کے لیے پی ٹی آئی کے سربراہ نے زرخیز وادی پشاور کے اس سپوت کو ہر مذاکراتی ٹیم میں شامل کیا۔

اس سال یکم جون کو ایک ٹویٹ میں عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے پرویز خٹک اور اسد قیصر کو اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کے لیے بھیجا لیکن انہیں ایک سیف ہاؤس میں ’بیٹھا لیا گیا۔‘

عمران خان کی ٹویٹ کے چند گھنٹوں بعد ہی پرویز خٹک نے پی ٹی آئی کے عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا، تاہم انہوں نے جماعت سے راہیں جدا کرنے کی خبروں کی تردید کی۔

عمران خان اور پرویز خٹک کے اختلافات

سیاسی مبصرین کے خیال میں عمران خان اور پرویز خٹک کے درمیان اختلافات یا ناپسندیدگی کی ابتدا 2018 کے انتخابات کے بعد شروع ہوئی، جب چیئرمین پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا میں وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے ضلع سوات سے تعلق رکھنے والی سیاسی طور پر ایک غیر معروف شخصیت محمود خان کا انتخاب کیا۔

پرویز خٹک اس سے قبل پانچ سال تک خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ کے طور ذمہ داریاں سرانجام دے چکے تھے اور 2018 میں جماعت کی صوبے میں کامیابی کا سہرا وہ اپنی سر لیتے تھے اور نتیجتاً صوبائی وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے خود کو سب سے اہل اور حقدار امیدوار گردانتے تھے۔

نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے صحافی مشتاق پراچہ کے خیال میں پرویز خٹک کو وزیراعلیٰ کے عہدے سے محروم رکھنے کے بعد عمران خان نے انہیں وفاقی کابینہ میں وزیر دفاع کا غیر اہم قلمدان دے دیا۔

’اس سے دونوں شخصیات کے درمیان اختلافات مزید گہرے ہوئے تاہم اس وقت پرویز خٹک نے یہ سب کچھ خاموشی سے برداشت کیا اور پارٹی کے ساتھ مخلص اور وفادار رہے۔‘

مشتاق پراچہ کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نہ بنائے جانے کے بعد پرویز خٹک وفاقی وزارت داخلہ کے خواہش مند تھے۔ ’عمران خان نے ان کی یہ خواہش بھی پوری نہیں کی۔‘

عوام سے رابطہ

پرویز خٹک کا شمار ان سیاستدانوں میں ہوتا ہے جو عوام سے رابطے استوار رکھنے کو انتخابی سیاست میں کامیابی کی کنجی سمجھتے ہیں۔

مشتاق پراچہ کے مطابق پرویز خٹک کی عوامی رابطہ مہم کبھی ختم نہیں ہوتی اور وہ پورا سال ضلع نوشہرہ میں سرگرم رہتے ہیں۔

’کوئی میت چھوڑتے ہیں نہ کوئی شادی یا خوشی کا موقع۔ ہر جگہ پہنچتے ہیں۔‘

پرویز خٹک کے برخوردار اسحاق خٹک بھی سیاسی طور پر سرگرم ہیں اور سارا سال والد کے ساتھ عوامی رابطہ مہم میں جتے رہتے ہیں۔

پرویز خٹک کی زندگی

پرویز خٹک کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ کے گاؤں مانکی شریف سے ہے اور وہ ایک معروف ٹھیکیدار ہستم خان کے گھر جنوری 1950 میں پیدا ہوئے تھے۔

ابتدائی تعلیم خیبر پختون خوا میں ھاصل کرنے کے بعد وہ لاہور کے معروف ایچیسن کالج اور راولپنڈی کے گورڈن کالج سے بھی منسلک رہے۔

پرویز خٹک کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں اور ان کے ایک بیٹے اسحاق خٹک نوشہرہ کے تحصیل ناظم بھی رہ چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پرویز خٹک 2011 میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت سے پہلے 1983 میں نوشہرہ کے ضلع ناظم رہ چکے ہیں اور اس کے بعد 1990، 1993 اور 1997 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سیٹ پر خیبر پختون خوا اسمبلی کے امیدوار تھے۔

1990 اور 1997 کے انتخابات میں انہیں عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار کے ہاتھوں شکست ہوئی، جبکہ 1993 میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔

2008 میں وہ اس وقت کی پاکستان پیپلز پارٹی (شیرپاؤ) جو اب قومی وطن پارٹی ہے، کی سیٹ پر صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور اس وقت صوبائی وزیر بھی رہے لیکن پارٹی لیڈرشپ سے اختلاف کے بعد صوبائی اسمبلی میں آزاد گروپ جوائن کر لیا۔

2011 میں پارٹی سے مستعفی ہو کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی۔

پی ٹی آئی میں شمولیت کے بعد 2013 کے عام انتخابات میں وہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا منتخب ہوئے اور 2018 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اس کے بعد 2018 کے عام انتخابات میں پرویز خٹک کو مرکز میں وفاقی وزیر دفاع کا عہدہ دیا گیا۔

ماضی میں پرویز خٹک کے پی ٹی آئی کے سابق صوبائی وزیر عاطف خان کے ساتھ اختلافات بھی ہوئے اور 2018 کے عام انتخابات کے بعد پرویز خٹک اور عاطف خان وزیراعلیٰ کے امیدوار بن کر بھی ابھرے تھے، لیکن بعد میں سوات سے تعلق رکھنے والے محمود خان کو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا منتخب کیا گیا تھا۔

پرویز خٹک خیبرپختونخوا کے وزیر آبپاشی اور ماضی میں دو بار وزیر صنعت و محنت رہ چکے ہیں۔ 25 ستمبر کو وہ پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل کے طور پر اپنا منتخب عہدہ جہانگیر ترین کو چھوڑ دیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست