برطانیہ میں سات نوزائیدہ بچوں کے قتل پر نرس کو تاحیات قید

33 سالہ نرس نے 2015 سے 13 ماہ کے دوران شمالی انگلینڈ کے کاؤنٹیس آف چیسٹر ہسپتال کے نوزائیدہ بچوں کے یونٹ میں پانچ بچوں اور دو بچیوں کو قتل کیا۔

مانچسٹر میں 17 اگست 2023 کو جاری کی گئی پولیس باڈی کیم فوٹیج سے لی گئی ایک تصویر، نرس لوسی لیٹبی کو تین جولائی 2018 کو گرفتار کیا گیا (اے ایف پی / ہینڈ آؤٹ)

برطانیہ میں عدالت نے سات نوزائیدہ بچوں کے قتل کے جرم میں لوسی لیٹبی نامی نرس کو تاحیات قید کی سزا سنائی ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ’جدید برطانوی دور کی سب سے بڑی سیریل چائلڈ کلر کو کبھی رہا نہیں کیا جانا چاہیے۔‘

33 سالہ نرس نے 2015 سے 13 ماہ کے دوران شمالی انگلینڈ کے کاؤنٹیس آف چیسٹر ہسپتال کے نوزائیدہ بچوں کے یونٹ میں پانچ بچوں اور دو بچیوں کو قتل کیا۔

لوسی لیٹبی نے شیر خوار بچوں کو جسم میں شوگر کی مقدار کو معمول پر لانے والی دوا انسولین کا ٹیکہ لگایا۔ ٹیکے کے ذریعے بچوں کے جسم میں ہوا بھری یا انہیں زبردستی دودھ پلایا جس کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہو گئی۔

نرس نے جن بچوں کو نشانہ بنایا ان میں بعض جڑواں تھے۔ ایک کیس میں دونوں بچے موت کے منہ میں چلے گئے۔ ایک اور صورت میں انہوں نے ایک ساتھ پیدا ہونے والے تین بچوں میں سے دو کو مار دیا۔ ایک کیس میں انہوں نے جڑواں بچوں میں سے ایک کو قتل کر دیا لیکن دوسرے کو مارنے میں ناکام رہیں۔

نرس کو عمر قید کی سزا جس میں رہائی کا کوئی امکان نہیں، سنانے والے جج جیمز گوس نے کہا کہ ’یہ بچوں کے قتل کا ظالمانہ، سوچا سمجھا اور مذموم منصوبہ تھا جس میں سب سے کم عمر اور سب سے کمزور بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔‘

جج کا کہنا تھا کہ ’اذیت پسندی کی حدوں کو چھوتا ہوا انتہائی خباثت پر مبنی فعل انجام دیا گیا۔ آپ کو کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ آپ کے عمل کا کوئی جواز نہیں بنتا۔آپ اپنی باقی زندگی جیل میں گزاریں گی۔‘

 اس موقعے پر کمرہ عدالت میں موجود جان سے جانے والے بچوں کے والدین رو پڑے۔

برطانیہ میں پوری زندگی جیل میں گزارنے کی سزا بہت کم سنائی جاتی ہے۔ اس سے قبل برطانیہ میں صرف تین خواتین کو ایسی سزا دی گئی ہے جن میں سیریل کلرز مائرا ہنڈلی اور روزمیری ویسٹ بھی شامل ہیں۔

پولیس کو نرس کے جرائم کا کوئی محرک نہیں ملا۔ جج گوس نے کہا کہ صرف لیٹبی کو ان کے اقدامات کی وجوہات کا علم ہے۔

مذکورہ نرس نے اپنی سزا سننے کے لیے جیل کا سیل چھوڑنے سے انکار کر دیا جس پر مطالبہ کیا گیا کہ مجرموں کو ان کے عمل سے متاثر ہونے والے افراد یا ان کے اہل خانہ پر پڑنے والے اثرات سننے پر مجبور کیا جائے۔ متاثرہ بچوں میں سے ایک کی ماں نے نرس کے جرم کو بدترین فعل قرار دیا۔

متاثرہ خاندانوں کے بیانات

 لیٹبی کے ہاتھوں ہسپتال میں ہونے والے ان ہولناک جرائم نے برطانیہ کو خوف زدہ کر دیا ہے جب ان کی عمر 20 سال سے زیادہ  تھی۔ متاثرہ خاندانوں کی زندگی تباہ ہوئی جب کہ لیٹبی کے ساتھ کام کرنے والی دوسری نرسوں کو ایسا نقصان پہنچا جس کے اثرات دیر تک برقرار رہیں گے۔

مانچسٹر کراؤن کورٹ میں مقدمے کی 10 ماہ تک جاری رہنے والی سماعت  کے بعد گذشتہ ہفتے لیٹبی کو قتل اور اقدام قتل کے سات سات جرائم کا مرتکب پایا گیا۔ جیوری اس بات پر اتفاق کرنے سے قاصر رہی کہ آیا انہوں چھ دیگر بچوں کو بھی قتل کرنے کی کوشش کی۔ نرس کو اقدام قتل کے دو دیگر الزامات سے بری کردیا گیا۔

قبل ازیں عدالت نے ان والدین میں سے ہر ایک کے جذباتی اور دل دہلا دینے والے بیانات سنے جن کے بچوں کو نرس نے قتل کر دیا یا قتل کرنے کی کوشش کی۔

ایک ساتھ پیدا ہونے والے تین بچوں کے والد کا کہنا تھا کہ ’لوسی لیٹبی نے ہماری زندگیاں تباہ کر دیں۔ ان کے لیے میرا غصہ اور نفرت کبھی ختم نہیں ہو گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان جڑواں بچوں کی ماں، جن میں سے ایک بچے کو قتل کر دیا گیا جب کہ دوسرا زندہ بچ گیا، نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ لیٹبی کی زندگی طویل ہو گی اور اپنے کیے کی وجہ سے ہر دن تکلیف میں گزاریں گی۔

’میرے گھر والے تمہارے بارے میں پھر کبھی نہیں سوچیں گے۔ آج کے دن سے تم کچھ بھی نہیں ہو۔‘

برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سونک نے کہا کہ نرس کی جانب سے اپنے عمل کے اثرات کو براہ راست نہ سننا بزدلی ہے۔

اگرچہ موجودہ برطانوی قانون کے مطابق عدالت میں پیش نہ ہونے والوں کی جیل کی سزا میں اضافہ کرسکتا ہے تاہم حکومت حاضری کو لازمی بنانے پر غور کر رہی ہے۔

سونک نے کہا کہ ’یہ ایک ایسی چیز ہے جسے ہم مناسب وقت پر آگے لائیں گے۔‘

برطانوی حکومت نے نوزائیدہ یونٹ کے سینئر ڈاکٹروں کے ان الزامات کے بعد اس معاملے کی تحقیقات کا بھی حکم دیا ہے کہ لیٹبی کے بارے میں ان کے خدشات پر ہسپتال کے مالکان نے دھیان نہیں دیا۔ ڈاکٹروں  کا مطالبہ ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تحقیقات کی سربراہی ایک جج کرے جو گواہوں کو گواہی دینے پر مجبور کرسکیں۔

سونک نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ خاندانوں کو ان ضروری کے جوابات ملیں اور انکوائری جتنی جلدی ممکن ہو شفاف طریقے سے کی جائے۔

دوسری جانب پولیس نوزائیدہ بچوں کے ان یونٹوں میں داخل کروائے گئے دیگر چار ہزار بچوں کے معاملے کی بھی تحقیقات کر رہی ہے جہاں لیٹبی نے یہ دیکھنے کے لیے کام کیا تھا کہ آیا وہ یہاں بچوں کو نشانہ بنا سکتی ہیں یا نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ