طوفان کی کوریج پر میانمار میں صحافی کو 20 سال قید کی سزا

سالہ صحافی سائی زاؤ تھائکے کو مئی کے آخر میں ریاست رخائن میں اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ سمندری طوفان موچا کی رپورٹنگ کر رہے تھے، جس میں 140 سے زیادہ اموات ہوئی تھیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق روہنگیا برادری سے تھا۔

اگست 2020 کی اس تصویر میں آن لائن نیوز سروس ’میانمار ناؤ‘ سے منسلک صحافی سائی زاؤ تھائکے ینگون میں اپنے ڈیسک پر کام کرتے ہوئے (میانمار ناؤ/ اے پی)

میانمار میں فوجی ٹریبونل نے ایک فوٹو جرنلسٹ کو سمندری طوفان کے بعد ہونے والی تباہی کی کوریج کرنے پر 20 سال قید بامشقت کی سزا سنا دی ہے۔

یہ سزا ایک ایسے وقت میں سنائی گئی ہے جب فروری 2021 میں آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے فوج آزاد میڈیا پر سخت پابندیاں عائد کر رہی ہے۔

ایک آن لائن نیوز سروس ’میانمار ناؤ‘ میں کام کرنے والے سائی زاؤ تھائکے کو فوجی بغاوت کے بعد مبینہ طور پر کسی بھی صحافی کے لیے سب سے سخت سزا سنائی گئی ہے۔

 40 سالہ صحافی کو مئی کے آخر میں ریاست رخائن میں اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ ہلاکت خیز سمندری طوفان موچا کی رپورٹنگ کر رہے تھے، جس میں 140 سے زیادہ اموات ہوئی تھیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق جبر کی شکار روہنگیا برادری سے تھا۔

میانمار ناؤ نے بتایا کہ گرفتاری کے بعد سائی زاؤ تھائکے سے سیتوے اور ینگون کے شہروں میں تقریباً ایک ہفتے تک پوچھ گچھ کی گئی، جس کے بعد انہیں جون کے وسط میں بدنام زمانہ انسین جیل منتقل کر دیا گیا۔

مقدمے کی سماعت انسین جیل کے اندر ہوئی اور سائی زاؤ تھائیکے کو اہل خانہ سے ملنے سے روک دیا گیا جب کہ جیل حکام نے ان کے آنے والے پارسل کو ان تک پہنچانے پر بھی پابندی عائد کردی۔ حراست کے دوران انہیں قانونی نمائندگی دینے سے بھی انکار کر دیا گیا۔

میانمار ناؤ کے ایڈیٹر اِن چیف سوی وِن نے کہا کہ ’ان کی سزا اس بات کا ایک اور اشارہ ہے کہ فوجی جنتا کے دور حکومت میں پریس کی آزادی کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے اور یہ ظاہر کرتی ہے کہ میانمار میں آزاد صحافیوں کو پیشہ ورانہ کام کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔‘

جلا وطن سوی وِن کا کہنا تھا کہ ’بے پناہ چیلنجز کے باوجود ہم میانمار کے عوام کو خبریں اور معلومات کی فراہمی جاری رکھنے کے اپنے عزم سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘

اگرچہ فوٹو جرنلسٹ کے خلاف الزامات کی تفصیلات فوری طور پر واضح نہیں ہو سکیں لیکن ابتدائی فرد جرم میں غلط معلومات، اشتعال انگیزی اور بغاوت کے الزامات شامل ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ ایشیا کے ڈپٹی ڈائریکٹر فل رابرٹسن کا کہنا ہے کہ میانمار کے حکام سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے فوری اور غیر مشروط طور پر سائی زاؤ تھائکے کو رہا کر دیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صحافی پر آن لائن ہتک عزت کا الزام بھی عائد کیا گیا، جس کی سزا تین سال قید ہے۔ ان پر لگائے گئے قدرتی آفات سے نمٹنے کے قانون کی خلاف ورزی کے الزام میں کہا گیا کہ انہوں نے مبینہ طور پر عوام میں خوف و ہراس پھیلانے کے ارادے سے طوفان کے بارے میں غلط معلومات پھیلائیں۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے جنوب مشرقی ایشیا کے سینیئر نمائندے شان کرسپن نے کہا کہ ’میانمار کے حکام کی جانب سے میانمار ناؤ کے صحافی سائی زاؤ تھائکے کو جھوٹے الزامات کے تحت 20 سال قید کی سزا اشتعال انگیز عمل ہے۔ سزا کا فیصلہ فوری طور پر واپس لیا جائے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میانمار کی جنتا کو محض صحافی کے طور پر اپنا کام کرنے کی پاداش میں پریس کے ارکان کو جیل میں ڈالنے کے عمل کو روکنا ہوگا۔‘

فروری 2021 میں ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد سے سائی زاؤ تھائکے میانمار ناؤ کے دوسرے صحافی ہیں جنہیں فوج نے گرفتار کیا۔ اس سے قبل کے زون وے نامی صحافی کو 2021 میں ینگون میں بغاوت کے خلاف مظاہرے کی کوریج کے دوران گرفتار کیا گیا تھا، تاہم بعد میں انہیں رہا کر دیا گیا۔

مقامی مانیٹرنگ گروپ ’ڈیٹینڈ جرنلسٹس انفارمیشن‘ کے مطابق میانمار ناؤ سمیت کم از کم 13 میڈیا اداروں کے میڈیا لائسنس منسوخ کیے جا چکے ہیں اور کم از کم 156 صحافیوں کو گرفتار کیا گیا جن میں سے تقریباً 50 اب بھی زیر حراست ہیں۔ حراست میں رکھے گئے تقریباً آدھے لوگوں کو مجرم قرار دے کر سزا سنائی جا چکی ہے۔

حراست کے دوران کم از کم چار میڈیا کارکنوں کی جان لی گئی اور دیگر کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

صحافت کی آزادی کے لیے کام کرنے والی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے اپریل میں کہا تھا کہ میانمار، چین کے بعد صحافیوں کو سزائیں دینے والا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ میانمار، تنظیم کے 2023 کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں بہت نیچے ہے اور  180 ممالک میں سے اس کا نمبر 176 ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا