میانمار: فوجی حکومت کی گاؤں پر حملے کی تصدیق، درجنوں اموات

خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق اقوام متحدہ اور مغربی طاقتوں کی مذمت کے بعد میانمار کی فوجی حکومت نے ایک گاؤں پر فضائی حملے کی تصدیق کی ہے، جس میں درجنوں اموات کی اطلاعات ہیں۔

میانمار میں فوجی جنتا کی کنبالو بستی پر حملے سے ہوئی تباہی کی تصویر، جو اپوزیشن تحریک کا کارکنوں نے 11 اپریل، 2023 کو اے پی کو فراہم کی۔

اقوام متحدہ اور مغربی طاقتوں کی مذمت کے بعد میانمار کی فوجی حکومت ’جنتا‘ نے ایک گاؤں پر فضائی حملے کی تصدیق کی ہے، جس میں درجنوں اموات کی اطلاعات ہیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے کہا کہ وہ اس مہلک فضائی حملے کے بارے میں سن کر ’خوف زدہ‘ ہیں اور متاثرین میں سکول کے بچے بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’عالمی ادارہ ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کرتا ہے۔‘

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وسطی ساگانگ علاقے کی دور افتادہ کنبالو نامی بستی پر منگل کی صبح فضائی حملے سے مرنے والوں کی تعداد ابھی تک واضح نہیں۔

بی بی سی برمی، دی اراوادی اور ریڈیو فری ایشیا کی رپورٹس کے مطابق اس حملے میں کم از کم 50 اموات اور درجنوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

فوجی حکومت جنتا نے منگل کی شب ایک بیان میں حملے کی تصدیق تو کر دی تاہم جانی نقصان کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں بتائی۔

جنتا کے ترجمان زاو من تون نے کہا: ’منگل صبح تقریباً آٹھ بجے پازیگی گاؤں میں باغی گروپ (پیپلز ڈیفنس فورس) کے دفتر کی افتتاحی تقریب تھی۔ ہم نے اس جگہ پر حملہ کیا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ مرنے والوں میں سے کچھ یونیفارم میں حکومت مخالف باغی جنگجو تھے، تاہم ’سویلین لباس والے کچھ لوگ بھی مرنے  والوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔‘

ترجمان نے ’چند‘ اموات کے لیے پیپلز ڈیفنس فورس کی بچھائی گئی بارودی سرنگوں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔

اقوام متحدہ نے تعداد کی تصدیق نہ کرتے ہوئے کہا کہ اس حملے میں متعدد عام شہری مارے گئے۔

ایک عینی شاہد نے امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو بتایا کہ ایک لڑاکا طیارے نے ایک ہجوم پر براہ راست بم گرایا جو صبح آٹھ بجے پازیگی گاؤں کے باہر اپوزیشن تحریک کے مقامی دفتر کے افتتاح کے لیے جمع تھے۔

ایک اور عینی شاہد نے بتایا کہ طیارے کی بمباری کے تقریباً آدھے گھنٹے بعد ایک ہیلی کاپٹر نمودار ہوا اور اس جگہ پر فائرنگ کی۔

ابتدائی رپورٹوں میں مرنے والوں کی تعداد 50 کے لگ بھگ بتائی گئی تھی لیکن بعد میں آزاد میڈیا کی رپورٹس کے مطابق یہ تعداد 100 تک بڑھ سکتی ہے۔

ایک اور عینی شاہد نے نام ظاہر نہ کرنے شرط پر اے پی کو بتایا کہ ’میں بھیڑ سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا جب میرے ایک دوست نے فون پر مجھ سے لڑاکا طیارے کے آنے کے بارے میں بتایا۔

’جیٹ طیارے نے براہ راست ہجوم پر بم گرائے اور میں قریبی کھائی میں چھلانگ لگا کر چھپ گیا۔ چند لمحوں بعد جب میں نے کھڑا ہو کر اردگرد نظر دوڑائی تو دیکھا کہ ہر طرف دھواں پھیلا ہوا ہے اور لوگوں کے اعضا ہر سُو بکھرے پڑے ہیں۔ آگ لگنے سے اپوزیشن کے دفتر کی عمارت تباہ ہو گئی۔ تقریباً 30 افراد زخمی بھی ہوئے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’جب زخمیوں کو منتقل کیا جا رہا تھا تو ایک ہیلی کاپٹر آیا اور مزید لوگوں پر فائرنگ کر دی۔ اب ہم لاشوں کو جلد از جلد جلا رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ افتتاحی تقریب کے لیے تقریباً 150 لوگ جمع ہوئے تھے اور مرنے والوں میں خواتین اور 20 سے 30 بچے شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ مرنے والوں میں مقامی طور پر بنائے گئے حکومت مخالف مسلح گروپوں اور دیگر اپوزیشن تنظیموں کے رہنما شامل ہیں۔

اقوام متحدہ، امریکہ اور دیگر ممالک نے اس حملے کی شدید مذمت کی ہے۔

ایک مقامی مانیٹرنگ گروپ کے مطابق، فوجی بغاوت کے بعد اختلاف رائے کے خلاف کریک ڈاؤن کے نتیجے میں 3,100 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گیترس نے بدھ کو میانمار کی مسلح افواج کے حملے کی شدید مذمت کی۔

ان کے ترجمان سٹیفن دوجارک نے کہا کہ ’گیترس نے فوج سے ملک بھر میں شہری آبادی کے خلاف تشدد ختم کرنے کے لیے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا۔‘

واشنگٹن نے بھی کہا کہ اسے فضائی حملوں پر ’گہری تشویش‘ ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا: ’یہ پرتشدد حملے حکومت کی انسانی جانوں کو نظر انداز کرنے اور فروری 2021 کی بغاوت کے بعد برما میں ہونے والے سنگین سیاسی اور انسانی بحران کے لیے فوج کی ذمہ داری کو مزید واضح کرتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا