بلدیہ فیکٹری کے دو ملزمان کی پھانسی کی سزا برقرار: سندھ ہائی کورٹ

کراچی میں  گیارہ ستمبر 2012 کو علی انٹرپرائز بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں آتشزدگی سے 259 افراد جل کر جان کھو بیٹھے تھے جب کہ سو سے زائد زخمی بھی ہوئے تھے۔

30 نومبر، 2018 کو کراچی میں ایک پاکستانی شخص بلدیہ گارمنٹس فیکٹری کے قریب سے گزر رہا ہے، جہاں 2012 میں کم از کم 260 افراد ی نذر ہوئے تھے (اے ایف پی / آصف حسن)

سندھ ہائی کورٹ نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کے مقدمے میں ملزمان کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سوموار کو فیصلہ سناتے ہوئے دونوں کی پھانسی کی سزا برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں عبدالرحمان بھولا اور زبیر چریا کی سزاۓ موت کے خلاف اپیلیں مسترد کر دیں ہیں تاہم عمر قید پانے والے چاروں  ملزمان کی اپیلیں منظور کر لیں گئیں۔

کراچی میں  گیارہ ستمبر 2012 کو علی انٹرپرائز بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں آتشزدگی سے 259 افراد جل کر جان کھو بیٹھے تھے جب کہ سو سے زائد زخمی بھی ہوئے تھے۔

ہائی کورٹ نے رؤف صدیقی اور دیگر کی بریت کے خلاف سرکار کی اپیلیں بھی مسترد کر دیں۔

فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر دو رکنی بینچ نے 29 اگست کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ انسداددہشت گردی کی ایک عدالت نے 2020 میں دو ملزمان کو سزا موت جب کہ چار کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

سندھ ہائی کورٹ نے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ بلدیہ مقدمے میں انتہائی غیرمعیاری اور ناقص تفتیش  ہوئی ہے، گمراہ کن ایف آئی آر کے ذریعے اصل مجرموں کو تحفظ فراہم کیا گیا، کیس میں گواہان خوف کی وجہ سے سامنے نہیں آئے جب کہ  پولیس نے بھی بھتا وصولی کو سامنے لانے سے گریز کیا۔

فیصلے میں کہا گیا ہےکہ تحقیقاتی کمیشن نے بھی آگ کی وجہ جاننے کے لیے ماہرین سے کیمیکل تجزیہ کرانے سےگریز کیا، ایسے واقعات روکنے کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق سندھ ہائی کورٹ کے سامنے تین سال بعد رضوان قریشی کی جے آئی ٹی سامنے آئی، اگر یہ رپورٹ سامنے نہ آتی تو اصل مجرم فرار ہو چکے ہوتے، پولیس نے حقائق تک پہنچنے کے لیے درست تفتیش تک نہیں کی، حفاظتی اقدامات نہ ہونے کا الزام لگا کر پولیس نےاپنی ذمہ داری سے گریز کیا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ کراچی کے تمام فیکٹری مالکان آگے لگنے سے متعلق ایس او پیز پر عمل درآمد کریں اور حماد صدیقی اشتہاری مجرم اور 10 سال سے بیرون ملک فرار ہے اسے واپس نہیں لایا گیا۔

عدالت نے حماد صدیقی کو وطن واپس لانے سے متعلق اقدامات کی رپورٹ طلب کرلی۔ عدالت نے سیکرٹری داخلہ اور آئی جی کو رپورٹ کے ساتھ پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ  حکام خود پیش ہوں یا سینیئر افسران کے ذریعے 18 ستمبر کو رپورٹ دیں۔

ہائی کورٹ نے سندھ حکومت کو تمام فیکٹریوں کا معائنہ کرانے کا  بھی حکم دیا ہے۔

گیارہ برس گزر گئے انصاف نہیں ملا: لواحقین

سندھ ہائی کورٹ  نے جو فیصلہ سنایا ہے اس حوالے سے نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے رکن ناصر محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ 'اس کیس کو کبھی صحیح تناظر میں رکھا ہی نہیں گیا۔ ’یہ انصاف کا قتل ہے کہ اصل مجرم اب بھی اسی طرح عیش کی زندگی گزار رہا ہے۔ کورٹ کے سامنے جو بات رکھی گئی  وہ بات ہی غلط تھی جو تین جے آئی ٹیز بنی ہیں اس کی روشنی میں دیکھا جائے تو کسی مرحلے پر بھی لواحقین کا اس پر کوئی  نقطہ نظر لیا ہی نہیں۔‘ 

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'اگر یہ دہشت گردی کا واقعہ تھا تو اس کے ماسٹر مائنڈ کو تو چھوڑ دیا گیا جبکہ علی انٹرپرائز فیکٹری نہیں قید خانہ تھا جس کی وجہ سے ایک بھی مزدور اپنی جان نہیں بچا سکا۔ ورکرز کو ایمرجنسی کی صورت میں کوئی ٹریننگ نہیں دی گئی تھی یہ دو سو ساٹھ لوگوں کے  ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔‘ 

نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے سربراہ ناصر محمود کا کہنا تھا کہ ’آئندہ چند دنوں میں اس حوالے سے پریس کانفرنس کا انعقاد کریں گے۔ انصاف نہ ملنے تک ہمت نہیں ہاریں گے۔‘

سربراہ ہوم بیسڈ ویمن ورکرز فیڈریشن زہرہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ 'ہم کسی فیصلے کو نہیں مانتے ہیں کیونکہ یہ انصاف کا قتل ہوا ہے یہ سانحہ سیاست کی نذر کیا گیا ہے انہیں کسی سے بدلہ لینا تھا اس کیس میں گھسیٹا گیا جبکہ اصل ملزم فیکٹری مالکان ہیں۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ فیکٹری کے اندر جو صورت حال تھی اس کے ذمہ داران کو ہی سزا ملنی چاہیے۔‘

ایم کیوایم کے سابق سیکٹر انچارج عبدالرحمان بھولا اور زبیر چریا کو سزائے موت سنائی تھی جب کہ فیکٹری ملازم شاہ رخ، فضل، ارشد محمود اور علی محمد کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

عدالت نے ملزمان ایم کیوایم روف صدیقی، عبدالستار، اقبال ادیب خانم اور عمر حسن کو عدم شواہد پر بری کر دیا۔

سزا یافتہ ملزمان نے سزاوں اور بری ہونے والے ملزمان کے خلاف پراسیکیوشن کے اپیل دائر کی تھی۔ سزا یافتہ ملزمان نے سزائوں کے خلاف اور سرکار نے چار ملزمان کی بریت کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔

سانحہ بلدیہ فیکٹری: کب کیا ہوا؟

11 ستمبر 2012 کو بلدیہ ٹاؤن میں ٹیکسٹائل فیکٹری کے حادثے میں 260 سے زائد افراد زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ واقعے کا مقدمہ پہلے سائٹ بی تھانے میں فیکٹری مالکان، سائٹ لمیٹڈ اور سرکاری اداروں کے خلاف درج کیا گیا، جس کے بعد کئی تحقیقاتی کمیٹیاں بنائی گئیں اور جوڈیشل کمیشن بھی قائم کیا گیا لیکن تحقیقات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکیں۔ گذشتہ سماعت پر عدالت نے ملزم علی حسن اور ڈاکٹر عبد الستار کی درخواست پر فیصلہ آج (22 ستمبر) کے لیے محفوظ کر لیا تھا۔

فروری2017 میں ایم کیو ایم رہنما روف صدیقی، رحمٰن بھولا، زبیر چریا اور دیگر پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ کیس میں ملزمان کے خلاف 400 عینی شاہدین اور دیگر نے اپنے بیان ریکارڈ کروائے ہیں۔ ایم کیوایم کارکن زبیر چریا اور دیگر ملزمان گرفتار ہیں جبکہ روف صدیقی ضمانت پر ہیں۔ فیکٹری مالکان نے آتشزدگی کا ذمہ دار ایم کیو ایم کو قرار دیا تھا۔

سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کی پیروی رینجرز پراسیکیوشن نے کی تھی۔ اس دوران تین تفتیشی افسران تبدیل ہوئے، چار سیشن ججز نے سماعت سے معذرت کر لی جبکہ چھ سرکاری وکلا نے دھمکیوں کے باعث مقدمہ چھوڑ دیا تھا۔

2014 میں فیکٹری مالکان ارشد بھائیلہ، شاہد بھائیلہ اورعبدالعزیز عدالتی اجازت کے بعد دبئی چلے گئے۔ 6 فروری 2015 کو رینجرز نے عدالت میں  رپورٹ جمع کرائی کہ کلفٹن سے ناجائز اسلحہ کیس میں گرفتار ملزم رضوان قریشی نے انکشاف کیا ہے کہ فیکٹری میں آگ لگی نہیں بلکہ لگائی گئی تھی۔

آگ لگانے کی اہم مبینہ وجہ فیکٹری مالکان سے مانگا گیا 20 کروڑ روپے کا بھتہ تھا۔ ملزم کی جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق حماد صدیقی نے بھتہ نہ دینے پر رحمٰن عرف بھولا کو مبینہ طور پر آگ لگانے کا حکم دیا۔ 2015 میں ڈی آئی جی سلطان خواجہ کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنائی گئی جس نے دبئی میں جا کر فیکٹری مالکان سے تفتیش کی جنہوں نے اقرار کیا کہ ان سے بھتہ مانگا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2016 دسمبر میں رحمٰن بھولا کو بینکاک سے گرفتار کیا گیا۔ کیس کا مقدمہ پہلے سٹی کورٹ میں چلا اور پھر سپریم کورٹ کی ہدایات پر کیس کی سماعت انسداد دہشت گردی عدالت میں ہوئی۔جنوری 2019 میں کیس کے مرکزی ملزم رحمٰن بھولا اور زبیر چریا فیکٹری میں آگ لگانے کے بیان سے مکرگئے تھے۔ دو ستمبر2020 کو گواہان کے بیانات اور وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے مقدمہ کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

رحمٰن بھولا کون ہے؟ 

بلدیہ فیکٹری واقعے کی تفصیلات سندھ حکومت کی جانب سے جاری کردہ 25 صفحات پر مبنی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ میں موجود ہیں۔ اس تحقیقاتی ٹیم میں پولیس، آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس، رینجرز اور ایف آئی اے کے اہلکار شامل تھے۔ 

رپورٹ کے مطابق رحمٰن بھولا متحدہ قومی موومنٹ کے سینیئر رہنما حماد صدیقی کا فرنٹ مین تھا۔ ملزم رضوان قریشی نے بتایا کہ حماد صدیقی نے اگست 2012 میں رحمٰن بھولا کے ذریعے علی انٹرپرائزز سے 20 کروڑ روپے تاوان مانگا تھا۔ بعد میں رحمٰن بھولا کو حماد صدیقی نے ہی بلدیہ ٹاؤن کا سیکٹر انچارج بھی مقرر کیا۔ 

رپورٹ کے مطابق رضوان قریشی نے بتایا کہ 20 کروڑ روپے تاوان کی ادائیگی نہ کرنے پر رحمٰن بھولا اور اس کے ساتھیوں نے فیکٹری پر کیمیکل پھینک کر آگ لگا دی تھی۔ 

رپورٹ کی حتمی سفارشات میں کہا گیا تھا کہ رحمٰن بھولا اور حماد صدیقی نے فیکٹری میں آگ لگانے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ فیکٹری کے پروڈکشن مینیجر محمد منصور کے مطابق 20 جولائی 2012 کو رحمٰن بھولا انہیں فیکٹری میں ملنے آیا جہاں فیکٹری مالکان سے بھی ملاقات ہوئی۔ اگلے دن انہیں بتایا گیا کہ رحمٰن بھولا نے ایم کیو ایم کراچی تنظیمی کمیٹی کے انچارج حماد صدیقی کے نام پر 25 کروڑ تاوان یا فیکٹری میں شراکت داری کا مطالبہ کیا تھا۔

منصور کے مطابق فیکٹری مالکان نے انہیں ایک کروڑ روپے ایم کیو ایم کے ساتھ معاملات نمٹانے کے لیے دیے مگر رحمٰن بھولا 20 کروڑ سے نیچے آنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بھولا نے دھمکی  دی تھی کہ اگر تاوان نہ دیا گیا تو فیکٹری کو سنگین نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ 

زبیر چریا کون ہے؟ 

زبیر چریا فیکٹری کے فنشنگ ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتا تھا اور جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق آگ لگانے والوں میں شامل تھا۔ پروڈکشن مینیجر منصور کے مطابق زبیر فیکٹری کا ملازم ہونے کے ساتھ ساتھ متحدہ قومی موومنٹ کا ورکر بھی تھا اور اس کی وجہ سے فیکٹری میں اس کا کافی اثرورسوخ تھا۔ 

فیکٹری میں کام کرنے والے ورکر محمد ارشد نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ جس دن فیکٹری میں آگ لگی، زبیر پانچ دیگر افراد کے ساتھ فیکٹری کے گودام کے مرکزی دروازے پر موجود تھا اورہشیش سے بھرے سگریٹ بنا رہا تھا۔ اسی جگہ پر زبیر نے کالے رنگ کے چھوٹے شاپنگ بیگ اپنے ساتھیوں کو دیے اور سب نے الگ لگ جگہ پر یہ شاپنگ بیگ پھینک دیے اور پانچ سے 10 سیکنڈ میں فیکٹری کو آگ لگ گئی۔ 

رپورٹ میں شامل محمد ارشد کے بیان کے مطابق جب فیکٹری مالکان نے آگ کو بجھانے کے لیے شور کیا تو وہ کینٹین کی طرف گیا مگر کینٹین کا دروازہ لاک تھا۔ جب کینٹین کے دروازے کی چابی ملی اور دروازے کو کھولا گیا تو زبیر اپنے نامعلوم ساتھیوں کے ساتھ کینٹین میں موجود تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان