جی20 سربراہی اجلاس: انڈیا کامیاب، ہم کہاں کھڑے ہیں؟

جب دنیا کی 20 عالمی طاقتوں کے سربراہ نریندر مودی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے جی20 کے سٹیج پر مسکرا رہے تھے ہم بجلی چوری پر قابو پانے، ڈالر کے پیچھے بھاگنے اور چینی چوروں کو سبق سکھانے میں مشغول رہے۔

انڈین دارالحکومت نئی دہلی میں ہونے والے جی20 سربراہی اجلاس کے موقع پر سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان، انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ بیٹھے نظر آ رہے ہیں (اے ایف پی)

جی20 کے سٹیج پر انڈین وزیراعظم نریندر مودی کا امریکی صدر جو بائیڈن اور سعودی ولی عہد سے اکٹھے مصافحہ ہو یا پھر انڈیا مشرق وسطیٰ یورپ اکنامک کوریڈور کے منصوبے کا اعلان ہو، اس سے دنیا کو یہ واضح پیغام ملا کہ انڈیا صرف ایک بڑی مارکیٹ ہی نہیں بلکہ ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت بھی ہے۔

انڈین تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ انڈیا کو مشرق وسطیٰ اور پھر یورپ سے ریل کے ذریعے ملانے والے اس منصوبے کی تکمیل سے انڈیا گلوبل ساؤتھ کا لیڈر بن کر چین کو چیلنج کر سکتا ہے!!

گذشتہ کئی دن انڈیا عالمی میڈیا کی شہ سرخی بنا رہا اور جس کمال مہارت سے جی20 کی سربراہی کانفرنس کے اعلامیے پر بغیر کسی تنازعے کے اتفاق کیا گیا اس سے یہ بات بھی اخذ ہوتی ہے کہ جب دنیا یوکرین تنازعے پر دو گروپوں میں بٹ چکی ہے۔ انڈیا نے روس اور امریکہ کو بیک وقت نہ صرف خوش کیے رکھا بلکہ دونوں ممالک سے جڑے اپنے مفادات بھی حاصل کرتا رہا۔

تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ اس وقت پاکستان جہاں کھڑا ہے اس کا ہمارے ایسے ہمسائے سے موازنہ کیا جائے جن سے ہم 75 سالوں سے ہر میدان میں مقابلہ کرتے آئے ہیں۔ اب تو صرف مقابلے کا خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ جب دنیا کی 20 عالمی طاقتوں کے سربراہ نریندر مودی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے، جی20 کے سٹیج پر مسکرا رہے تھے ہم بجلی چوری پر قابو پانے، ڈالر کے پیچھے بھاگنے اور چینی چوروں کو سبق سکھانے میں مشغول رہے۔ یہ بات نہیں کر رہا کہ یہ تمام اقدامات نہیں ہونا چاہیے لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ یہی اقدامات درجنوں دفعہ پہلے نہیں ہوئے؟ ہم کیوں گول دائرے میں چلنے والا وہ بیل بن چکے ہیں، جس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔

آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی نیت پر کوئی شک نہیں کہ وہ پاکستان کو سدھارنا چاہتے ہیں لیکن مافیاز کے خلاف یہ ایکشن اگر ماضی کی طرح عارضی ثابت ہوا تو یہ ہماری بڑی بدقسمتی ہو گی۔

نریندر مودی 2030 تک انڈیا کو پانچ کھرب کی معیشت بنانا چاہتے ہیں اور جس طرح سے انڈیا آگے بڑھ رہا ہے ایسا ہونا ممکن بھی نظر آتا ہے لیکن ہم کہاں پھنس کر رہ گئے ہیں!!

صبح اخبارات پر نظر ڈالیں تو شہ سرخیاں یہ ہوتی ہیں کہ صدر مملکت الیکشن کی تاریخ کسی بھی وقت دے سکتے ہیں۔۔ الیکشن کمشنر صاحب اعلان فرماتے ہیں کہ نہیں یہ میرا اختیار ہے۔۔ 25 کروڑ آبادی والی ایٹمی طاقت یہ فیصلہ نہیں کر سکتی کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار کس کا ہے۔

مجھے  اپنے ملک سے پیار ہے۔ آج اپنی حالت دیکھ کر ہم جیسے بہت سے پاکستانی ایسے کرب میں مبتلا ہو چکے ہیں جو کہ تب تک لاعلاج ہے جب تک اس وطن میں کچھ تھوڑا بہت استحکام نہ آجائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہم بچوں کو معاشرتی علوم کی کتاب میں 75 سالوں سے یہ تو پڑھا رہے ہیں کہ انڈیا ہمارا ازلی اور ابدی دشمن ہے لیکن یہ نہیں بتا رہے کہ آپ نے ہر میدان میں اپنے دشمن کا مقابلہ کرنا ہے۔

انڈیا برطانیہ کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے۔ انڈین گریجویٹس دنیا کی ٹاپ کمپنیوں کی سربراہی کر رہے ہیں۔ چندرائین تھری کے ذریعے چاند پر اتر کر انڈیا جدید سائنس میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکا ہے۔

ہم کیوں نہیں اپنی قوم اور نسلوں کو ان میدانوں میں انڈیا سے مقابلے کے لیے تیار کر پائے ؟؟ ہمیں سوچنا پڑے گا کہ کیوں آج ہمارے گریجویٹس کی پہلی خواہش امریکا، کینیڈا اور آسٹریلیا جا کر سیٹل ہونا ہے؟ یہ وطن جس نہج پر پہنچ چکا ہے ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کیا دے سکتے ہیں؟ اگر ہم 20 برس بعد خود کو ایک خوشحال ملک بنانا اور دیکھنا چاہتے ہیں تو آغاز آج کرنا ہو گا۔ لیکن سب کو مل کو کچھ اصول طے کرنا ہوں گے۔

آج جنرل عاصم منیر جو باتیں کر رہے ہیں وہ درست ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کو اس پورے عمل کی اونرشپ لینا ہو گی۔ اس وقت کوئی بھی ایک سیاسی جماعت آل پارٹیز کانفرنس کے بعد میثاق معیشت پر سب کو متفق کروائے۔ سب کو، چاہے وہ فوج ہو، عدلیہ ہو، بیوروکریسی ہو یا پھر سیاسی جماعتیں۔ جب تک کم از کم ایجنڈے پر اتفاق رائے نہیں ہو گا ہم آنکھوں پر پٹی بندھے اس بیل کی طرح گول چکر میں گھوم کر صرف انڈیا مردہ باد کا ورد ہی کرتے رہیں گے۔

نوٹ: یہ کالم لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ