جی20 اور ہمارے خواب

نا جانے کب ہمارے حالات بدلیں گے اور ایسے ہی عالمی سطح پر ہمارا کوئی وزیراعظم کسی اجلاس میں جائے گا تو ساری دنیا کے نمائندے اپنی نشستوں سے کھڑ ے ہو کر اس کے لیے تالیاں بجا ئیں گے۔

انڈین وزیر اعظم نریندر مودی 10 ستمبر 2023 کو نئی دہلی میں جی 20 سربراہی اجلاس کے مقام پر بین الاقوامی میڈیا سنٹر کے دورے کے دوران (اے ایف پی)

’پڑوسی ملک جی 20 کی میزبانی کر رہا ہے اور ہم ابھی تک بجلی کے بلوں پر رو رہے ہیں۔‘

یہ جملہ سوشل میڈیا کی کسی پوسٹ پر کسی صارف کا تبصرہ تھا اور میرے جیسے سوشل میڈیا کے پکے سکرولر کی نگاہوں کے سامنے آیا تو اسے جی 20 کی تفصیلات کے تجسس سے نکال کر سیدھا بجلی کے بلوں کے دکھ کی طرف لے آیا۔

اب جی 20 انڈیا حکومت کا کون سا معاشی پتہ ہے اور اس نے کس وقت میں کیسے اسے چلایا ہے اس پر بہت سے سیاسی تجزیہ کار لکھ اور بول بھی رہے ہیں۔ بہت سے لوگ اسے انڈیا کی ایک اور کامیابی بھی گردان رہے ہیں۔

بہر حال  ہم اور آپ کچھ بھی کہتے اور سمجھتے رہیں یہ بات تو ماننے کی ہے کہ مودی سرکار کو مشیر بہت اچھے ملے ہیں۔

ہمارے لیے یہ سیاسی باتیں، جمہوریت کا خواب، ترقی یافتہ ملک کے باسی ہونے کی خواہش اور امیر ہونے کا سپنا  دیوانے کا خواب بنا دیا گیا ہے، جس کی تعبیر پتہ نہیں کتنی نسلوں بعد ممکن ہو۔ لیکن ابھی ہمیں زمینی حقائق کی دلدل سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔ اور اس طرف سوچنے سے بچائے رکھنے کے کئی سو طریقے اختراع کیے جاتے ہیں۔

تو میرے ہم وطنو! یہاں بڑی بڑی باتیں کرنے اور سوچنے کی طرف جانے کے بجائے جو حربے اب تک کار گر ہیں ان میں مہنگائی، بھوک، غربت اور بجلی کے بل سر فہرست رہے ہیں۔

تو ہم بھی اسی جانب نگاہ کرتے ہیں اور اپنا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ آپ سے شیئر کرتے ہیں۔

کچھ ماہ قبل اپنی بڑی بہن کے ساتھ مل کر میں نے ایک پرائیویٹ گرلز ہاسٹل کی بنیاد رکھی اور یہ پہلے سے موجود ہاسٹلز کی مارکیٹ میں جا کھولا۔

یہاں آ کر معلوم ہوا کہ تقریباً ہر ہاسٹل خواہ وہ لڑکوں کا ہو یا لڑکیوں کا ان کی بجلی کی کھپت لا محالہ عام صارف کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے لیکن ان کے بجلی کے بل دس پندرہ ہزار سے زیادہ نہیں آتے۔

یہ تو وہی قصہ ہوا کہ کوئی بھی فیکٹری کھولنے والا سب سے پہلے واپڈا کے کسی ورکر کو چائے پانی دے کر میٹر سیٹ کروا لیتا ہے کہ خاص رقم سے زیادہ بل کبھی نہ آئے۔ تو یہاں یہ سسٹم دیکھ کر ایک بار تو دل چاہا کہ ہم بھی ایسا ہی کر لیں تا کہ کچھ تو بچت ہو لیکن جب اپنے آبائی گھر سے خبر ملی کہ بجلی کا بل اصل استعمال سے کہیں زیادہ آیا ہے تو مانو کسی نے عبرت دلا دی ہو۔

پھر اس سارے معاملے پر غور کیا تو سمجھ آئی کہ یہ سیٹنگ والے میٹر کی بھرپائی دوسرے لوگ کرتے ہیں، جو ایمانداری سے اپنے گھروں میں بجلی کا استعمال بھی کم کرتے ہیں اور دوسروں کی بے ایمانی کا بھگتان بھی بھگتتے ہیں۔

اس کے بعد تو پھر پے در پے بجلی کے زیادہ بلوں کی خبریں اور ان کے ہاتھوں تنگ آ کر معصوم عوام کی خودکشیوں کے قصے بھی سننے کو ملنے لگے۔

تو بات سمجھ میں آئی کہ اس پرائیویٹائزیشن کا ایک اور جیتا جاگتا ثبوت یہ محکمہ بن چکا ہے جہاں طاقت ور کو کوئی کچھ نہیں کہتا جبکہ کمزور کو کوئی کسی لمحے نہیں بخشتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب ہونا تو یہ چاہیے کہ اس طرح کے کاروبار والوں کے لیے کوئی ایسی پالیسی بنائی جائے کہ جس میں سیدھے طریقے سے واجب الادا رقم کی ادائیگی کریں۔ ان پر کمرشل ٹیکس فائلر ہونے کی صورت میں کم لگایا جائے اور نان فائلرز کو رجسٹرڈ ہونے پر کسی طرح کے فائدے کی نوید سنائی جائے ۔

اس کے بعد اس چائے پانی والے کلچر کی بیخ کنی لازمی کی جائے لیکن ہم اس حوالے سے بھی اس قدر بد قسمت ہیں کہ انکوائری والی ٹیمز کو بھی پیسہ پھینک تماشہ دیکھ والی نوٹنکی بنا لیتے ہیں اور وہ ٹیمز بھی آگے سب اچھا کی رپورٹس پیش کرتی ہیں۔

پتہ نہیں کب ہمارے حالات بدلیں گے اور ایسے ہی عالمی سطح پر ہمارا کوئی وزیر اعظم کسی اجلاس میں جائے گا تو ساری دنیا کے نمائندے اپنی نشستوں سے کھڑ ے ہو کر اس کے لیے تالیاں بجا ئیں گے۔

نا معلوم کب ہم جی ٹوینٹی کے میزبان ہوں گے۔ نا جانے کب ہم بجلی، پانی، غربت، سیلاب اور بے روزگاری کے دکھوں سے باہر  نکل کر دنیا میں سر اٹھا کر چلنے کے قابل ہوں گے۔

کیا کبھی ہمارا چکور بھی چاند تک پہنچے گا۔

میں اپنے ہاتھ میں بجلی کا بل تھامے یہ سب سوچ رہی ہوں اور ساتھ ہی یہ خبر بھی مل گئی ہے کہ سوئی گیس کی قیمتوں میں اضافہ متوقع ہے ۔

حیراں ہوں دل کو روؤں یا پیٹوں جگر کو میں ۔۔۔۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ