ٹاسک فورس، خصوصی عدالتیں بجلی کے بل کم کر سکیں گی؟

ماہرین بجلی کے بلوں میں کمی کے لیے خصوصی عدالتوں اور ٹاسک فورسز کے قیام سے متعلق حکومتی اقدامات کی کامیابی کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

30 مئی 2021 کو کراچی میں سڑک کے کنارے بجلی کے کھمبوں پر ملازمین کام کر رہے ہیں (اے ایف پی/رضوان تبسم)

پاکستان میں گذشتہ ماہ بجلی کے بلوں میں غیر معمولی اضافے کے باعث عوام میں تشویش کی لہر برقرار ہے۔ ملک بھر میں تاجروں کی بڑے پیمانے پر شٹر ڈاؤن ہڑتال، عوامی احتجاج، اس کی وسیع میڈیا کوریج اور بل جلائے جانے کے واقعات کے بعد نگران حکمران بھی اس معاملے کی طرف توجہ دینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

نگران حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ معاشی معاہدے میں طے شدہ ٹیکس شرائط میں نرمی کے لیے کوشاں ہے۔ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بجلی کے شعبے میں اصلاحات کا عمل تیزی سے جاری ہے، بجلی چوروں کے خلاف مؤثر کارروائی کی جائے گی۔

دوسری جانب اقتدار کے ایوانوں میں بھی بجلی کی چوری، بلوں کی عدم ادائیگی روکنے کے لیے ٹاسک فورس بنا کر خصوصی عدالتیں قائم کرنے کی بات کی جا رہی ہے اور انڈپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) سے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کی قیمتوں سے متعلق معاہدوں پر نظر ثانی کی تجاویز بھی زیر غور ہیں۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان اقدامات سے عوام کو بجلی کے بلوں میں ریلیف ملے گا اور حکومت جو اعلانات کر رہی ہے کیا ان پر عمل درآمد ممکن بھی ہے؟

ماہر توانائی امور انجینیئر اسد محمود کے مطابق پہلے سے بجلی چوری روکنے اور بلوں کی ادائیگی کو یقینی بنانے کا موجود نظام پر سختی سے عمل درآمد کرانے کی ضرورت ہے۔

’آئی پی پیز سے بھی بات چیت کے ذریعے معاہدوں پر نطر ثانی ممکن ہے۔ بجلی چوری کرنے والے افراد اور علاقوں کے نام بھی پبلک کیے جائیں۔‘

ماہر قانون امجد شاہ کہتے ہیں کہ بجلی چوری روکنے کے لیے پہلے بھی عدالتیں موجود ہیں قانون بھی موجود ہے لیکن عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ ’اب بھی اگرچہ حکومت کے پاس نئی خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا اختیار ہے مگر عمل درآمد کیسے یقینی بنایا جائے گا۔‘

اعلانات اور عمل درآمد کا چیلنج

نگران وفاقی وزیر توانائی محمد علی نے بدھ کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بجلی چوری کے خلاف ملک گیر کریک ڈاؤن شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ بجلی چوری کے خاتمے اور بلوں کی ادائیگی تک قیمتیں نیچے نہیں آئیں گی۔

انہوں نے انکشاف کیا تھا: ’ملک میں اس وقت 589 ارب روپے کی بجلی چوری ہو رہی ہے۔ ہمارے پاس سارا ڈیٹا موجود ہے کہ کون سے علاقوں اور فیڈرز میں بجلی کی چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی زیادہ ہے اور اسی ڈیٹا کی بنیاد پر ہم کارروائی کریں گے۔‘

نگران وزیر توانائی نے کہا کہ کئی علاقے ایسے ہیں جہاں بجلی کی چوری بہت زیادہ ہے، ان میں مردان اور شکارپور نمایاں ہیں، ان علاقوں میں بجلی کی چوری کم کرنے کے لیے کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔

 چیئرمین سینٹ قائمہ کمیٹی برائے توانائی سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے منگل کو انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کیے بغیر مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ ان سے دوبارہ معاملات طے کیے بغیر بجلی کی قیمت کم کرنا مشکل ہے۔‘

سابق حکومت کی توانائی بچانے کے لیے بنائی گئی نیشنل توانائی کنزمپشن کمیٹی کے رکن ماہر توانائی انجینیئر اسد محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’حکومت کی جانب سے بجلی کے بلوں میں کمی کے لیے آئی ایم ایف سے ریلیف مانگنے کے علاوہ بجلی چوری روکنے اور بلوں کی ادائیگی یقینی بنانے کے اقدامات اٹھانے کے اعلانات خوش آئند ہیں۔

’آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظر ثانی کی کوشش بھی اچھا فیصلہ ہو گا۔ لیکن یہ سب اعلانات ہیں دیکھنا ہو گا کہ حکومت اپنے مجوزہ اقدامات کو عملی جامع کیسے پہناتی ہے اور یہ سب کچھ کرنا حکومت کے لیے ممکن بھی ہو گا یا نہیں؟‘

اسد محمود کے بقول: ’آئی ایم ایف سے حکومت جو بجلی کی قیمتوں میں ریلیف دینے کی اجازت مانگ رہی ہے اس کے لیے حکومت کس طرح انہیں رضامند کرے گی؟ یہ ابھی دیکھنا ہو گا۔

’دوسری بات یہ کہ بجلی کی چوری روک کر اور بلوں کی ادائیگی یقینی بنانے کا جو اعلان کیا جا رہا ہے تو اس میں بھی پہلے سے موجود نظام سے بھی بہت زیادہ بہتر نتائج نہیں ملے۔ نئے طریقوں سے عمل درآمد کس طرح کرایا جائے گا اس بارے میں بھی حوصلہ افزا نتائج دکھائی نہیں دے رہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت طاقت کا استعمال کر کے نتائج لینا چاہتی ہے۔ یہ طریقے تو پہلے بھی کئی بار آزمائے جا چکے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’حکومت کو چاہیے جن علاقوں میں بجلی چوری ہوتی ہے وہاں  فیڈرز اور افراد کے نام مشتہر کر کے عوام کے سامنے لائے۔ ’اس سے عوامی پریشر بڑھے گا۔ پھر لوگوں کو تشہیری مہم کے ذریعے بتایا جائے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اتنی بجلی چوری کر رہے ہیں اور بل ادا نہیں کرتے جس کا بوجھ اس علاقے کے لوگوں پر پڑ رہا ہے۔ وہ اپنے علاوہ کسی اور کے استعمال میں آنے والی بجلی کا بل بھی ادا کرنے پر مجبور ہیں۔

اسد محمود کے خیال میں فری بجلی حاصل کرنے والوں کی تفصیلات بھی منظر عام پر لائی جائیں تاکہ لوگوں کو اندازہ ہو کہ یہ نوکری کے وقت ان لوگوں کو پیکج سہولت کے طور پر دی جا رہی ہے۔

’جن کو مفت بجلی دی جائے اس پر چیک رکھا جائے کہ وہ کتنی بجلی خود استعمال کرتے ہیں کتنی ضائع ہوتی ہے اور کیا اپنے طور پر تو کسی کو بجلی فراہم نہیں کر رہے؟‘

آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی سے متعلق اسد محمود  کا کہنا تھا کہ ان کمپنیوں کو ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کے ریٹس کے طریقہ کار میں تبدیلی کی ضرورت پر قائل کیا جانا چاہیے۔

’اسی طرح آئی پی پیز کو بجلی پیدا میں استعمال ہونے والے تیل یا دیگر وسائل کی قیمت کے تعین کا متبادل حل تلاش کرنے پر بھی راضی کیا جائے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ بجلی سستی کرنے کے اعلان کردہ حکومتی اقدامات پر عمل درآمد ناممکن تو نہیں مشکل ضرور ہے۔

’دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کس طرح عملی طور پر اقدامات کرتی ہے، کیونکہ اس سے پہلے بھی حکومتیں مختلف تجربات کر چکی ہیں مگر مسائل وہیں کے وہیں ہیں۔ اس لیے کہنے سے زیادہ عمل لازمی ہے۔‘

حکومتی اقدامات قانونی طور پر ممکن ہیں؟

وفاقی وزیرمحمد علی نے کہا کہ ’ہم ایک ’الیکٹرسٹی تھیفٹ کنٹرول ایکٹ‘ پر کام کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ خصوصی عدالتیں بھی قائم ہوں گی جہاں اس حوالے سے سزائیں دی جائیں گی۔ ہم نے ایجنسیوں کی معاونت سے ان افسران کی فہرست تیار کر لی ہے جو بجلی کی چوری میں ملی بھگت کرتے ہیں۔ ان افسران کو ہٹایا جائے گا۔ ان کی فہرست الیکشن کمیشن کو بھجوا دی گئی ہے۔ اس حوالے سے ہم صوبائی اور ضلعی سطح پر ٹاسک فورس تیار کر رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماہر قانون سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل امجد علی شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بجلی چوری ہو یا گیس چوری ان کے لیے ملک کے ہر ضلع میں خصوصی عدالتیں پہلے سے موجود ہیں۔ ’ان عدالتوں کو الیکٹریسٹی ایکٹ کے سکیشن 39 کے تحت کارروائی کا اختیار بھی ہے۔ ان دنوں بجلی چوری کے بہت کیس عدالتوں میں آ رہے ہیں۔ نگران حکومت کی جانب سے بجلی چوری روکنے کے لیے ٹاسک فورس بنانے اور خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا پھر اعلان کر دیا گیا ہے۔‘

امجد شاہ کے کے خیال میں بجلی چوری روکنے کے لیے نگران حکومت سابق پارلیمنٹ کے ذریعے خصوصی اختیار ملنے کے بعد آرڈیننس کے ذریعے عدالتیں قائم کرنے کا قانونی اختیار تو رکھتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس سے کتنی کامیابی ملے گی؟ کیا عدالتوں کی تعداد بڑھانے سے بجلی چوری رک جائے گی؟

ان کے خیال میں بجلی چوری روکنے کے لیے نظام تبدیل کرنے کے بجائے اسے بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

’سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بجلی چوری کے مقدمات میں جرم ثابت ہونے پر صرف عام صارف کو سزا ملتی ہے، جبکہ متعلقہ سرکاری ملازمین کی ملی بھگت کے بغیر بجلی چوری ممکن نہیں۔ لیکن انہیں کوئی سزا نہیں ملتی۔ محکموں کو اپنے ملازمین کی پوری رپورٹ ہوتی ہے مگر کارروائی نہیں ہو سکتی۔‘

ان کے خیال میں ’نئی ٹاسک فورس بنانے یا عدالتیں قائم کرنے کے بجائے موجودہ نظام میں بہتری کی ضرورت ہے۔

’جب بجلی چوری والے علاقوں میں تعینات متعلقہ افسران اور اہلکاروں کی تنخواہ سے چوری شدہ بجلی کی رقم کاٹی جائے گی اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی تو وہ خود بجلی چوری روک سکتے ہیں۔

امجد شاہ نے مزید کہا کہ عدالتوں میں بجلی چوری کرنے والے صارفین کے ساتھ چوری میں مدد فراہم کرنے والے ملازمین کی پکڑ ہو گی تو بجلی چوری چوری رک سکتی ہے۔

سابق چیئرمین پنجاب بار کونسل کے مطابق ’اس سے پہلے بھی بجلی چوروں کے خلاف کارروائی کے لیے 1998 میں فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں کے ملازمین کی ڈیوٹیاں لگائی گئی تھیں لیکن بعد میں انہیں ہٹا دیا گیا۔

’اس دور میں بجلی چوری کے جتنے بھی کیس عدالتوں میں آئے ان میں کارروائی کرنے والے سکیورٹی اہلکار عدالتوں میں پیش نہیں ہوئے۔ سب بجلی چوری کے مقدمے ختم ہو گئے۔ لہٰذا اس کے لیے جامع اور موثر حکمت عملی لازمی ہے، جو مستقل بنیادوں پر تشکیل دی جائے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان