پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور نواز شریف کے ترجمان محمد زبیر نے کہا ہے کہ ’جب تک عمر عطا بندیال (سپریم کورٹ کے) چیف جسٹس ہیں وہ نواز شریف کی وطن واپسی کا رسک نہیں لیں گے۔‘
نواز شریف کی واپسی سے ملکی سیاسی منظرنامے پر کیا تبدیلیاں آئیں گے اس بارے میں گفتگو میں محمد زبیر نے کہا کہ ’ہم نے ہمیشہ سے کہا ہے کہ جب تک عمر عطا بندیال چیف جسٹس ہیں ہم یہ رسک نہیں لیں گے کیونکہ جب انصاف کے تقاضے ہی پورے نہ ہوں تو یہ کوئی بہادری نہیں۔ یہ ان کی قانونی ٹیم کی جانب سے مشورہ دیا گیا، تو اس معاملے میں کسی کی یقین دہانی کی ضرورت نہیں ہے۔‘
مسلم لیگ ن ماضی میں نواز شریف کی واپسی میں قانونی پیچیدگیوں کے بارے میں عمومی بات تو کرتی رہی ہے لیکن یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی پارٹی رہنما نے کھل کر چیف جسٹس کے بارے میں بات کی ہے۔
تاہم اس سے قبل اسلام آباد میں چند روز قبل ’قانون کی حکمرانی‘ کے عنوان سے مسلم لیگ ن کے وکلا فورم سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے لیگی رہنما عطا تارڑ نے بھی چیف جسٹس پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا 16 ستمبر کو جب وہ سبکدوش ہوں گے تو وہ دن بطور ’یوم نجات‘ منایا جائے گا۔
ادھر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی گذشتہ دنوں کہا ہے کہ فروری 2023 میں سپریم کورٹ کے سامنے کئی آئینی مقدمات آئے جن میں الجھا کر عدالت کا امتحان لیا گیا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ سخت امتحان میں کئی مرتبہ عدالت خود شکار بنی۔
بعض سیاسی و قانونی تجزیہ نگار بھی سمجھتے ہیں کہ عدالت عظمی کو سیاست دانوں نے سیاسی تنازعات میں غیرضروری طور پر الجھایا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے محمد زبیر نے کہا کہ نواز شریف کے واپس آنے سے ان کے حامیوں اور مخالفین دونوں کے لیے سیاسی منظر نامہ بالکل بدل جائے گا۔ ’تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے کی اپنی اہمیت ہے، انہوں نے لندن بیٹھ کر بھی پاکستانی سیاست سے متعلق بڑے بڑے فیصلے کیے۔‘
اس سوال پر کہ کیا نواز شریف کی واپسی کا اعلان کسی یقین دہانی سے مشروط ہے؟ محمد زبیر نے کہا: ’یہ ہمارا اپنا حساب ہوتا ہے جس کے قانونی اور سیاسی اثرات ہیں جن کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا تھا کہ کب جائیں۔
مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی 21 اکتوبر کو وطن واپسی کے اعلان کے بعد پارٹی کے رہنما متحرک نظر آ رہے ہیں تاہم سابق وزیر اعظم کی واپسی کا فیصلہ کس تناظر میں ہوا، اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے اور اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کے رہنما کیا رائے رکھتے ہیں؟
سال 2019 میں قید کی سزا کے دوران طبی بنیادوں پر اجازت ملنے پر برطانیہ روانہ ہوئے اور وہاں چار سال قیام کے بعد نواز شریف توقع ہے کہ اگلے ماہ پاکستان واپس پہنچیں گے۔
اس اعلان کے بعد یہ چہ مہ گوئیاں ہو رہی ہیں کہ ان کی وطن واپسی سے سیاسی منظر نامے پر کیا اثر پڑے گا؟ اور یہ اعلان کیا کسی یقین دہانی کے بعد ممکن ہوا ہے؟ انہوں نے کہا مسلم لیگ ن کو انتخابات میں سب سے زیادہ نواز شریف کی ضرورت ہے جو ان کے ناقدین کے لیے پریشانی کا باعث ہوگا۔
’نواز شریف کی موجودگی ہونا لازمی تھا کیونکہ کچھ عرصے میں انتخابی مہم بھی شروع ہو جائے گی۔
’جب ان پر بنے کیسز ختم ہوں گے تو ہم سمجھیں گے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ مل گئی۔‘
مسلم لیگ ن نے نواز شریف کی واپسی سے متعلق قانونی پیچیدگیوں کا ذکر تو کیا تھا تاہم پہلی دفعہ ہے کہ چیف جسٹس کے بارے میں برملا اظہارِ رائے کیا۔
نواز شریف کی واپسی کے بعد ن لیگ کو لیول پلیئنگ فیلڈ ملنے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا اتنے بڑے رہنما کو سیاست سے باہر کر کے انتخابات کروانا ممکن ہی نہیں تھا۔
’اگر پراجیکٹ عمران خان لانچ نہ کیا جاتا تو پاکستان کی اتنی خراب صورت حال نہ ہوتی جتنی اس وقت ہے۔ لیول پلیئنگ فیلڈ کا ہر جگہ مطالبہ کیا جاتا ہے، اور اس کا مطلب برابر مواقع ملنا ہے۔ ان کی واپسی پر جب ان پر بنے کیسز ختم ہوں گے تو ہم سمجھیں گے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ مل گئی ہے۔‘
سابق وزیر اعظم کو وطن واپسی پر کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اس سوال پر نواز شریف کے ترجمان نے کہا پاکستان کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔
’سال 2013 میں ان کی حکومت کو بجلی اور دہشت گردی کے چیلنجز درپیش تھے، اور اس مرتبہ اب معاشی مسائل کا سامنا ہوگا جسے ہم آہستہ لیکن ضرور حل کریں گے۔‘
’یہ لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں‘
مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحادی حکومت کا حصہ رہنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ترجمان فیصل کریم کنڈی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا نواز شریف کی واپسی سے سیاسی منظر نامہ پر مثبت اثر پڑے گا۔ وہ اپنی جماعت کی انتخابی مہم یہاں سے چلائیں گے لیکن اس سے پہلے ان کی قانونی ٹیم کو ان کی ضمانت کروانی ہوگی۔
انہوں نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا: ’وہ جب یہاں سے گئے تو جیل میں تھے اور طبی بنیادوں پر گئے تھے، ان کی واپسی پر ان کی قانونی پوزیشن کیا ہوگی؟ کیا ان کی ٹیم ان کی ضمانت کروائے گی؟ سب کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ ہونی چاہیے۔
’ہم تو کہتے ہیں سیاست دانوں کو اپنی مہم چلانی چاہیے۔ جیل سے بیرون ملک جا کر واپس آنے کے بعد ان کے لیے مشکلات ہوں گی۔ اگر انہیں ریلیف نہیں ملتا تو وہ جیل جائیں گے، اور اگر ملتا ہے تو وہ باہر آ سکتے ہیں۔ اور یہی ان کی مشکلات نظر آ رہی ہیں۔‘
فیصل کریم کنڈی نے کہا چاروں صوبوں میں نگران حکومت ہونے کے باوجود صرف پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ’ترقیاتی منصوبے شروع کر رہے ہیں اور تقرریاں کر رہے لیکن دوسری جانب سندھ میں ان پر بالکل پابندی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کا موقف ے کہ سندھ میں بھی ایسے نہیں ہونا چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اگر نہیں ہے تو کسی کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔ یہ لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ہے۔‘
’نواز شریف اگر جیل جانے کے لیے تیار ہیں تو ضرور آئیں‘
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر ہمایوں مہمند نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا سابق وزیر اعظم کے آنے سے کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
’کوئی بھی اثر پڑے جب وہ واپس آئیں گے تو دیکھ لیا جائے گا، اور تو کچھ نہیں ہوگا۔ جس طریقے سے چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ ہوا ہے، میرا نہیں خیال کچھ زیادہ فرق پڑے گا۔‘
ہمایوں مہمند نے کہا: ’ٹھیک ہے ان کا ووٹ بینک ہے اور وہ اپنی جماعت کے بڑے سربراہ ہیں لیکن جب بھی کوئی مسئلہ ہوتا ہے وہ باہر چلے جاتے ہیں۔ یا تو انہیں یقین دہانی دلا کر جیل ڈالا جائے گا کہ تم آ جاؤ ہم کچھ نہیں کہیں گے۔ ایک بھاگے ہوئے انسان کے لیے جال بچھایا جاتا ہے جب وہ پکڑا جاتا ہے تو اسے جیل میں ڈال دیتے ہیں۔دوسری جانب ذوالفقار علی بھٹو نے ایسا نہیں کیا اور پاکستان میں ہی رہے۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر نے مزید کہا مسلم لیگ ن باقی پارٹیوں کے ساتھ متفق تو ہو سکتی ہے لیکن تحریک انصاف کے ساتھ نہیں، ان کا آپس میں کوئی جوڑ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا اگر نواز شریف جیل جانے کے لیے تیار ہیں تو ضرور آئیں تاہم ان کے واپس آنے سے کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئے گی۔