برطانیہ: بڑھتے حملوں کے بعد امریکن بلی ڈاگ پر پابندی کا عندیہ

یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب جمعرات کی سہ پہر سٹیفورڈ شائر کے علاقے سٹونل میں امریکی نسل کے ان کتوں کے حملے سے ایک 52 سالہ شخص کی موت واقع ہو گئی۔

25 اگست 2019، ترکی کے شہر انقرہ میں کتوں کے مقابلوں میں شریک ایک امریکی پٹ بل(اے ایف پی/ادم التن)

وزیر اعظم رشی سونک نے کہا ہے کہ امریکن ایکس ایل بُلی ڈاگ کے بڑھتے ہوئے ہولناک حملوں کے بعد اس دیو قامت نسل کے  کتوں پر رواں سال کے آخر تک برطانیہ میں پابندی عائد کر دی جائے گی۔

سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں برطانوی وزیراعظم نے کہا کہ یہ جانور، جنہیں مہم چلانے والوں نے 2021 سے اب تک کم از کم 14 انسانی اموات سے جوڑا ہے، بچوں اور کمیونیٹیز کے لیے خطرہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کتوں کے حالیہ حملوں کی ویڈیوز کے بعد پیدا ہونے والے ’قوم کے خوف‘ میں وہ بھی شامل ہیں اور اس نسل کی وضاحت اور اس پر پابندی عائد کرنے کے لیے فوری کام کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ ہم ان حملوں کو ختم کر اور لوگوں کو محفوظ رکھ سکیں۔‘

یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب جمعرات کی سہ پہر سٹیفورڈ شائر کے علاقے سٹونل میں اس امریکی نسل کے کتوں کے حملے سے ایک 52 سالہ شخص کی موت ہو گئی۔

کتے قریبی گھر سے بھاگے جس کے بعد دو بچوں کے والد ایان پرائس کو جان لیوا زخم آئیں۔ پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ جب حملہ ہوا اس وقت پرائس اپنی بزرگ والدہ کے گھر کے باہر تھے۔

ایک پڑوسی نے دی مرر کو بتایا: ’میری بیٹی نے چیخنے اور بھونکنے کی آواز سنی اور یہ دیکھنے کے لیے باہر آئی کہ کیا ہو رہا ہے۔ ان میں سے ایک کتا، جو سفید رنگ کا تھا، (متاثرہ شخص کے) خون میں لت پت تھا اور اپنی دم ہلا رہا تھا۔ اس نے کہا کہ یہ ایک خوفناک منظر تھا۔‘

پابندی کے نفاذ سے پہلے ہی وزیر داخلہ سوئیلا بریورمین نے کہا تھا کہ وہ توقع کرتی ہیں کہ پولیس عوام کو ’ان درندوں سے بچانے کے لیے تمام دستیاب وسائل استعمال کرے گی۔‘

اس اقدام کی حمایت مہم چلانے والے گروپوں، لیبر پارٹی اور 30 سال قبل ’ڈینجرس ڈاگز ایکٹ‘ نامی قانون متعارف کرانے والے کینتھ بیکر نے کی تھی۔

سونک نے کہا کہ اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ مسئلہ ’محض چند خراب تربیت یافتہ کتوں کا نہیں ہے‘ بلکہ ’یہ طرز عمل کا ہے اور یہ مزید نہیں چل سکتا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’اگرچہ مالکان کی پہلے ہی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے کتوں کو کنٹرول میں رکھیں، میں لوگوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہم ان حملوں کو روکنے اور عوام کی حفاظت کے طریقوں پر فوری طور پر کام کر رہے ہیں۔‘

لیکن انہوں نے تسلیم کیا کہ اس پابندی میں وقت لگے گا کیونکہ فی الحال اس نسل کی کوئی وضاحت نہیں ہے کیوں کہ ایسے زیادہ تر کتے امریکی پٹ بل کی نسل کے ہیں۔ پولیس اور دیگر ماہرین کو یہ مسئلے کو حل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے تاکہ وزرا اس سال کے آخر تک ’ڈینجرس ڈاگز ایکٹ‘ کے تحت ان جانوروں پر پابندی لگا سکیں۔

حال ہی میں حملوں کا ایک سلسلہ شہہ سرخیوں کی زینت بنا ہے، جس میں گذشتہ ہفتے برمنگھم میں شدید زخمی ہونے والی ایک 11 سالہ لڑکی بھی شامل ہے جب کہ دو دیگر افراد بھی ایسے ہی حملوں میں زخمی ہوئے تھے۔

اپنے بازو کے گرد کتے کے جبڑے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سکول کی طالبہ آنا پان نے کہا: ’تمام کتوں، ان سب پر پابندی عائد کی جانی چاہیے۔‘

گذشتہ ہفتے بریورمین نے بھی اس نسل پر پابندی کے مطالبے کی حمایت کی اور اعلان کیا تھا کہ وہ حوالے سے ’فوری مشورہ‘ دیں گی۔

لارڈ بیکر کا کہنا تھا کہ پابندی کے نفاذ کے بعد بُلی ڈٓاگز کو ’افزائش نسل کی صلاحیت سے محروم یا انہیں ختم‘

کیا جانا چاہیے یا اس صورت میں اجازت دی جائے کہ تمام زندگی ان  کی تھوتھنی کو بند کیا جائے گا۔

ایل بی سی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے ٹوری رہنما نے کہا: ’یہ تقریبا فوری کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ ایک بہت خطرناک نسل ہے اور اس نے دراصل بچوں کو مارا اور دوسرے لوگوں پر حملہ کیا ہے اور میں کینیل کلب اور آر ایس پی سی اے کے خیالات کو قبول نہیں کرتا کہ ایسی نسلوں پر پابندی نہیں لگائی جانی چاہیے۔‘

ان کے بقول: ’یہ کتا دراصل لڑنے کے لیے پالا جاتا ہے۔ اس نے پہلے ہی کافی نقصان کیا ہے اور وزیر اعظم اس حوالے سے بالکل صحیح ہیں۔‘

مہم چلانے والے گروپ ’بُلی واچ‘ کا کہنا ہے کہ یہ نسل ’صحت عامہ کے لیے واضح خطرہ ہے۔‘

اگرچہ لیبر پارٹی نے اس پابندی کی حمایت کی ہے لیکن اس نے ملکیت پر پابندی کے بارے میں ’ہجکچاہٹ ‘ پر وزیر اعظم کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

شیڈو انوائرمنٹ سیکریٹری سٹیو ریڈ کا کہنا تھا: ’(متاثرہ) خاندانوں کو غصہ آئے گا کہ رشی سونک کو آخر کار کام کرنے میں اتنا وقت لگا۔‘

تاہم آر ایس پی سی اے اور کینیل کلب سمیت جانوروں کے فلاحی اداروں کے اتحاد کا کہنا ہے کہ کتوں پر پابندی لگانے سے حملے نہیں رکیں گے۔

ڈاگ کنٹرول کولیشن کے ایک ترجمان نے کہا: ’32 برسوں سے ڈینجرس ڈاگز ایکٹ نے کتوں کی اقسام پر پابندی لگانے پر توجہ مرکوز کی ہے اور پھر بھی کتے کے کاٹنے کے واقعات میں اضافہ ہوا اور حالیہ اموات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ طریقہ کارآمد نہیں رہا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ 'برطانوی حکومت کو اس بنیادی مسئلے سے نمٹنا چاہیے اور کتے پالنے والوں سے نمٹنا چاہیے جو فلاح و بہبود کی بجائے منافع دیکھتے ہیں اور ان غیر ذمہ دار مالکان سے جن کے کتے خطرناک حد تک بے قابو ہیں۔'

گروپ، جس میں ڈاگز ٹرسٹ اور برٹش ویٹرنری ایسوسی ایشن بھی شامل ہیں، نے کہا کہ وہ ’اس فیصلے کے پیچھے اعداد و شمار کی کم دستیابی اور کتے کے کاٹنے کی روک تھام کی صلاحیت کے بارے میں گہری تشویش رکھتے ہیں۔‘

جمعرات کو ہوئے مہلک حملے میں پرائس کو سٹانل کے علاقے مین سٹریٹ میں دو مشتبہ ایکس ایل بُلیز نے زخمی کر کے مار دیا جس کے بعد پولیس کو مجبوراً قریبی پرائمری سکول بند کرنا پڑا۔

انہیں ’متعدد جان لیوا زخم‘ آئے اور بعدازاں وہ ہسپتال میں دم تور گئے۔ سٹیفورڈ شائر پولیس نے تصدیق کی ہے کہ دونوں کتوں کی بھی موت ہو گئی ہے ایک کی واقعے کے بعد روکتے ہوئے اور دوسرے کی زہریلے انجکشن سے۔

ساؤتھ سٹیفورڈ شائر سے تعلق رکھنے والے 30 سالہ شخص سے اس واقعے کے سلسلے میں پوچھ گچھ جاری رکھنے کے لیے تفتیش کاروں کو مزید 10 گھنٹے کی مہلت دے دی گئی ہے۔

یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جنوری اور مارچ میں انہی کتوں سے متعلق دو واقعات میں بھی پولیس کو بلایا گیا تھا۔

تاہم انڈپینڈنٹ آفس فار پولیس کنڈکٹ نامی ادارے کی جانب سے اس فورس کی تحقیقات نہیں کی جا رہی ہیں۔

برطانیہ فی الحال امریکی بُلی ایکس ایل کو ایک مخصوص نسل کے طور پر تسلیم نہیں کرتا ہے حالانکہ انہیں امریکہ میں تسلیم کیا جاتا ہے۔

بُلی واچ کے مطابق یہ کتے پہلی بار 2014 کے آس پاس برطانیہ میں نظر آنا شروع ہوئے اور کرونا وبا کے دوران اس نسل کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا۔

گذشتہ پانچ برسوں کے دوران کتوں کے حملوں میں 34 فیصد اضافہ ہوا جو 2018 میں تقریباً ساڑھے 16 ہزار سے بڑھ کر پچھلے سال تقریباً 22 ہزار ہوگئے ہیں۔

2022 میں 10 خطرناک حملے ہوئے، جن میں سے چھ میں امریکی ایکس ایل بُلی شامل تھا۔

تاہم آر ایس پی سی اے اور برٹش ویٹرنری ایسوسی ایشن سمیت ماہرین اور جانوروں کے فلاحی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ مخصوص نسل پر متعلقہ پابندی غیر موثر ہے اور اس سے ہزاروں معصوم کتے مر سکتے ہیں۔

معروف ویٹرنری ڈاکٹر ڈیو مارٹن نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’ہم نے پٹ بل کے ساتھ ایسا کرنے کی کوشش کی لیکن یہ موثر ثابت نہیں ہوا۔ ہمیں ان حملوں کو کم کرنے کے لیے ایک کثیر الجہتی نقطہ نظر پر غور کرنا چاہیے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’اگر ہم کل ان کتوں پر پابندی لگا دیں تو ہم ان ہزاروں بُلی ایکس ایل کے ساتھ کیا کریں گے جو پہلے ہی ہماری سڑکوں پر گھوم رہے ہیں؟ کیا ہم یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ ہم ان سب کو مار دیں؟ جس پر مجھے نہیں لگتا عوام راضی ہوں گے۔‘

’یا ہم ان کتوں کے لیے کسی قسم کا لائسنسنگ سسٹم بنانے جا رہے ہیں؟ اس صورت میں ہمیں یہ جاننے کے لیے تفصیلات دیکھنی پڑیں گی کہ آیا اس کا واقعی ان کتوں کی وجہ سے ہونے والی زخمی افراد یا اموات کو کم کرنے پر کوئی اثر پڑے گا۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ