’زمانہ جاہلیت میں بیٹی پیدا ہوتے ہی دفنا دیتے تھے۔ ہم زندہ رکھتے ہیں تاکہ روز دفنا سکیں۔‘
ڈرامے کا یہ مکالمہ ہی کہانی کا مرکزی خیال ہے۔ ڈراما ’رضیہ‘ جس کا شدت سے انتظار تھا، آیا اور پہلی ہی قسط میں چھا گیا۔
ایک تھی رضیہ سے ایک ہے رضیہ تک کی کہانی کو روایتی تھیٹر اور موجودہ سکرین کے مشترکہ انداز میں پیش کیا جا رہا ہے، جس میں رضیہ کی کہانی داستان گو کے روپ میں ماہرہ خان سنا رہی ہیں۔
یہ کہانی کم و بیش اس معاشرے کی ہر اس لڑکی کی ہے، جس کے پیدا ہوتے ہی خاندان کی امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں اور بیٹی کی پیدائش کا پہلا حق اس کی پیدائش کی خوشی چھین لی جاتی ہے۔
پھر یہ چھینا جھپٹی ساری عمر چلتی ہے جب تک کہ وہ رضیہ سے رضیہ سلطانہ کی طرح خود گھر اور باہر والوں سے اپنا حق نہیں چھین لیتی۔
لیکن بیٹا پیدا کرنے کی کوشش مسلسل جاری رہتی ہے۔
پھر ایک دن دادی کی پہاڑ والے تعویذ اور ڈاکٹروں کی کوششوں سے مل ملا کر بیٹا پیدا ہو ہی جاتا ہے، تو دادی جان خوشی سے دنیا سے ہی کوچ کر جاتی ہیں۔
لیں جی بیٹا ہو گیا ہے اور اب رضیہ کا ایک بھائی بھی ہے، جس نے زمانے میں سب سے پہلے اس کے مقابل آنا ہے۔ جس کی غیرت کا دوپٹہ رضیہ کے پاس ہو گا اور وہ باپ کے بعد اس کا دوسرا حاکم بنے گا۔
ابھی تو پہلی ہی قسط ہے، جس میں بچپن کی چھوٹی چھوٹی محرومیوں پہ اس داستان گو نے بات کی ہے، وہ کہتی ہیں: ’رونا تو اب میری رضیہ نے ہے، جس کے پیدا ہونے پہ صرف خدا راضی ہے۔‘
کہانی ایک بچی کی پیدائش سے نوجوانی، نوجوانی سے جوانی، جوانی سے شادی اور شادی سے شوہر، شوہر سے پھر بیٹا پیدا ہونے تک دائرے کی صورت معاشرے میں لگی مسلسل گرہن سوچ کو آلودہ چاندنی رات میں دکھا رہی ہے اور اس کے گرد ہالہ بھی سات رنگی ہے۔
یہ سات رنگی ہالہ محسن علی اور ان کی ٹیم کی پیش کش ہے۔ مسائل وہی ہوتے ہیں۔ اہم یہ ہے کہ انہیں بیان کیسے کیا گیا ہے تو بھئی بیان تو ایسے کیا گیا ہے کہ دل کو چھو گیا۔
جمالیات کا عنصر بدلتے موسم کی خنک ہواؤں جیسا ہے، جس میں موسموں کی سختی چھپی ہوئی ہے۔ بہت کڑوی کڑوی باتیں بہت میٹھے میٹھے انداز سے کی گئی ہیں۔ یونہی تو نہیں کہتے کہ شائشتگی دل میں اتر جاتی ہے اور تھپڑ کی گونج نہیں بھولتی۔
یہ یاد رہ جانے والا منی ڈراما ہو گا، جس میں ویب سیریز کا لطف ہے۔
کہانی دو الگ دنیاؤں میں چل رہی ہے۔ ایک کہانی سنانے والی میلے میں سٹیج پر رضیہ کی کہانی سناتی ہے۔ سٹیج رنگین دنیا کی داستان ہے اور کہانی وہی پرانی بلیک اینڈ ویٹ زمانے کی ہے کہ دادی کو پوتا چاہیے اور باپ کو وارث، جس میں ماں کا کردار پیدا کرنے والی مشین کا سا ہے۔
سماج کا انداز سماجی و معاشرتی ہی ہے۔ ’تیرے منہ پہ تیرا، میرے منہ پہ میرا۔‘
کہانی کا آغاز1997 کے انتخابات کے دوران پیدا ہونے والی رضیہ سے ہوتا ہے گویا یہ اس وقت ہر زندہ نوجوان لڑکی کی کہانی ہے کہ جو ہراسمنٹ، جنسی تضاد، زندگی، گھر والوں کے رویوں اور باہر والوں کے کانٹوں کو بڑے ہوتے ہوئے اور پڑھتے ہوئے برداشت کرتی ہے۔ کبھی بغاوت بھی کرتی ہے مگر اسی لمحے اس سے سوال کا حق چھین لیا جاتا ہے۔
اس سب کو بیان کرنے کا انداز اتنا شاندار اور جاندار ہے کہ مسئلے کی گہرائی کا اندازہ بہت حساسیت سے ہو جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محسن علی ڈرامے کے مصنف اور پروڈیوسر ہیں۔ ایگزیکٹو پروڈیوسر حنا امان اور کامران آفریدی ہیں۔
مو سیقی اور شاعری بہت زبردست ہے۔ نئی سینڈریلا کے نام مکالمہ لکھا گیا ہے۔
ڈرامے میں داستان گو کا مرکزی کردار ماہرہ خان نے ادا کیا ہے۔ بہت نفیس طرز کا لباس اور زیور کا انتخاب کیا گیا ہے۔ بالوں میں جو رنگین دھاگے گوندھے ہیں وہ جمالیات کو چار چاند لگا رہے ہیں۔
مکالمہ نثری نظم جیسا ہے اور طویل مکالمہ ہے جسے ماہرہ خان نے اپنی آنکھوں اور چہرے کے تاثرات سے روحانی سا بنا دیا ہے۔
ایک مشکل کردار کرنے پہ ان کو شائقین اور مداحوں نے داد کے بہت پھول دیے ہیں۔ بلا شبہ ان کے کیرئر کا یہ ایک یاد گار کردار ہو گا۔
محب مرزا اور مومل شیخ ساتھی کرداروں کے طور اچھا نبھا رہے ہیں۔ ساتھی کردار خود کو مرکزی کردار کی چکا چوند سے نہ نکالے تو مرکزی کردار کی اہمیت کم ہو جاتی ہے لیکن ان دونوں نے مرکزی کردار کو مرکز میں ہی رہنے دیا ہے۔
ایکسپریس ٹی وی سے ڈراما نشر ہو رہا ہے اور داستان گو پہلی قسط کے اختتام پہ کہتی ہیں:
’ابھی تو کہانی شروع ہوئی ہے۔
ابھی تو
رضیہ نے پہلی بغاوت کی ہے
ابھی تو پہلی شرارت ہوئی ہے
ابھی تو بہت فساد ہونا ہے
بہت حساب ہونا ہے
باقی ہے بہت ابھی
جو کہانی سنانی ہے‘
پس ابھی تو کہانی شروع ہوئی ہے۔ دیکھتے رہیے دائرہ نما کہانی میں داستان گو کیا کہنے، بتانے اور دکھانے جا رہی ہیں، جو ہم دیکھنا نہیں چاہتے، جو ہم سننا نہیں چاہتے کہ ابھی تو کہانی شروع ہوئی ہے۔