نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کو عدالت سے ریلیف نہ ملا تو ’بدقسمتی سے‘ انہیں ’نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کو جمعے کو دیے گے انٹرویو میں نگران وزیراعظم نے کہا: ’اس سے قبل جب میں نے عمران خان کی سزا کے بارے میں جو اشارتاً بات کی تھی، اس کا مقصد یہ تھا کہ عدالتی نظام میں جتنے بھی مواقع ہیں، اگر انہیں استعمال کرنے کے بعد بھی قوانین کے تحت انہیں انتخابات سے روکا گیا، تو یہ ہمارے مینڈیٹ سے باہر ہو گا کہ ہم انہیں کوئی ریلیف دے سکیں۔ قانون اپنا راستہ خود اختیار کرے گا۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ کیا موجودہ تناظر میں وہ اس صورت حال کو عمران خان اور فوج کے مقابلے کے طور پر دیکھتے ہیں؟ نگران وزیراعظم کا کہنا تھا: ’نہیں، میں عمران خان بمقابلہ ریاست دیکھ رہا ہوں۔‘
مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی وطن واپسی کے حوالے سے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ قانون اپنا راستہ اختیار کرے اور سابق وزیراعظم کی ممکنہ گرفتاری اور جیل بھیجنے کے بارے میں ان کی حکومت نے وزارت قانون سے رائے بھی طلب کی ہے۔
نگران وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے وزارت قانون سے اس بارے میں بھی رائے لی ہے کہ جب نواز شریف واپس آئیں گے تو قانون کے مطابق (ان کے بارے میں) نگران حکومت کا انتظامی رویہ کیا ہونا چاہیے۔
ان کے بقول: ’عمران خان کی طرح نواز شریف کے معاملے میں بھی ہم چاہیں گے کہ قانون اپنا راستہ خود اختیار کرے، آپ کو یاد ہو گا کہ وہ ایک عدالتی حکم نامے کے ساتھ ملک سے باہر گئے تھے۔‘
نگران وزیراعظم نے مزید کہا: ’نواز شریف کے معاملے کے دو پہلو ہیں، جن میں سے ایک تو سیاسی ہے تاہم اس بحث میں جائے بغیر کہ اگر مروجہ قوانین کے تحت دیکھا جائے تو یہ فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے۔ ایک سزا یافتہ شخص کو عدالتوں نے اجازت دی تھی، ایگزیکٹیو نے نہیں دی تھی۔ تو یہ سوال عدالتوں کے پاس ہے، ایگزیکٹیو کے پاس نہیں ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ نواز شریف ایک سزا یافتہ شخص ہیں؟ نگران وزیر اعظم نے جواب دیا: ’میں تسلیم کروں یا نہ کروں جب ایک شخص کو اعلیٰ عدالتوں نے غلط یا صحیح طریقے سے سزا سنا دی ہے تو میرے کہنے سے نہ وہ سزا ختم ہو سکتی ہے، نہ بڑھ سکتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’نواز شریف کے خلاف جو فیصلہ آیا تھا وہ ایک فردِ واحد کے خلاف فیصلہ تھا، جس پر کچھ نے شادیانے بجائے لیکن اسی سیاسی شخص کی جماعت نے اگلے انتخابات میں 90 کے قریب نشستیں بھی حاصل کی تھیں۔‘
انتخابات میں حکومت کی غیرجانبداری کو یقینی بنانے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں نگران وزیراعظم نے کہا کہ ’پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ قطعاً کوئی سختی نہیں برتی جائے گی۔ ہاں ان لوگوں کے ساتھ قانون کے مطابق ضرور نمٹا جائے گا، جو منفی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں اور وہ مخصوص افراد ہیں جو 25 کروڑ کی آبادی میں 15 سو یا دو ہزار بنتے ہوں گے، ان کو پاکستان تحریک انصاف سے جوڑنا کوئی منصفانہ تجزیہ نہیں ہو گا۔‘
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ تحریک انصاف کے خلاف ہونے والی کارروائی کا جنرل ضیا الحق کے زمانے میں پیپلز پارٹی کے خلاف ہونے والی کارروائی یا جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں مسلم لیگ کے خلاف ہونے والی کارروائی سے موازنہ کرنا ایک ’بیہودہ تجزیہ اور غلط بات‘ ہو گی۔
بقول انوار الحق کاکڑ: ’اگر آپ ایک سویلین نگران حکومت کا فوجی جنتا سے موازنہ کریں گے تو یہ زیادتی ہو گی۔ کیا پاکستان میں اِس وقت ملٹری ٹیک اوور ہوا ہے؟ کیا آئین معطل ہے؟ عدالتیں کام کر رہی ہیں جب کہ عوام کے بنیادی حقوق موجود ہیں۔‘
انوار الحق کاکڑ نے 14 اگست 2023 کو پاکستان کے نگران وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا۔ نگران حکومت ملک میں عام انتخابات کے صاف شفاف انعقاد کی پابند ہے اور اس سلسلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ڈیجیٹل مردم شماری کی بنیاد پر ابتدائی حلقہ بندیوں کی فہرست جاری کردی ہے، جس کے بعد ایک حتمی فہرست جاری ہوگی اور پھر جنوری 2024 کے آخری ہفتے میں ملک میں عام انتخابات متوقع ہیں۔