کرم: بازاروں میں خواتین پر حملوں کے واقعات کا معاملہ کیا ہے؟

ضلع کرم کے علاقے پاڑا چنار میں گذشتہ دو ماہ کے دوران کئی خواتین کو شارٹ گن سے نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ پولیس کے مطابق ایسا خواتین کو بازاروں میں آنے سے روکنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

13 دسمبر، 2015 کی اس تصویر میں ضلع کرم کے شہر پاڑہ چنار کے سرکاری ہسپتال کا منظر(اے ایف پی/عرفان برکی)

خیبرپختونخوا کے ضلع کرم کے علاقے پاڑا چنار میں گذشتہ دو ماہ کے دوران کئی خواتین کو ’شارٹ گن سے نشانہ‘ بنایا گیا ہے جبکہ پولیس کے مطابق امکان ہے کہ ایسا خواتین کو بازاروں میں آنے سے روکنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

کرم کے ضلعی پولیس عہدیدار محمد عمران نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گذشتہ دو ماہ کے دوران خواتین کو ٹارگٹ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور اب تک ایسے آٹھ واقعات سامنے آئے ہیں۔‘

محمد عمران نے بتایا کہ ‘خواتین کو شارٹ گن سے ٹارگٹ کیا گیا جس سے خواتین زخمی ہوئیں لیکن ان واقعات میں کسی کی موت واقع نہیں ہوئی۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’ان خواتین کو بازاروں کے پیچھے موجود گلیوں میں نشانہ بنایا گیا اور اب تک جو بات سامنے آئی تو قوی امکان یہی ہے کہ کچھ ’بنیاد پرست‘ لوگ خواتین کو مارکیٹ آنے سے منع کر رہے ہیں۔‘

ضلعی پولیس عہدیدار محمد عمران کے مطابق ’اس حوالے سے ہماری تفتیش جاری ہے لیکن ابھی تک اس معاملے میں کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی ہے لیکن ہم کوشش کر رہے ہیں۔‘

محمد عمران نے بتایا کہ ’یہ واقعات تقریباً 20 دن پہلے سامنے آئے تھے لیکن اس کے بعد حملے کا واقعہ سامنے نہیں آیا ہے جبکہ سارے واقعات میں شارٹ گن کا استعمال کیا گیا ہے۔‘

پاڑا چنار کی نمائندہ تنظیم کا کیا موقف ہے؟

پاڑا چنار میں اکثریتی آبادی اہل تشیع مسلمانوں کی ہے اور انجمن حسینیہ پاڑا چنار کی نمائندہ تنظیم ہے۔

 اسی تنظیم کے فوکل پرسن علی جواد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم نے خواتین پر حملوں کی بھرپور مذمت کی ہے اور ان واقعات میں ملوث افراد کو بے نقاب کرنے میں پولیس کے ساتھ ہماری مدد شامل ہو گی۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’یہ واقعات شہری علاقوں میں نہیں بلکہ شہر سے باہر غیرآباد علاقوں میں ہو رہے ہیں اور حکومت اور ہم پولیس کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ہمیں امید ہے کہ جلد ملزمان کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے گی۔‘

پاڑہ چنار کے مقامی صحافی ارشاد حسین طوری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ واقعات ضرور سامنے آئے تھے لیکن یہاں پر خواتین تعلیمی اداروں میں جا رہی ہیں اور ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’پاڑہ چنار میں عام طور پر خواتین باپردہ اور نقاب میں باہر نکلتی ہیں اور یا اپنے گھر کے کسی مرد کے ساتھ بازاروں میں ضروری کام سے جاتی ہیں۔‘

ارشاد حسین نے بتایا کہ ‘ابھی حالات معمول پر ہیں اور گذشتہ دو تین ہفتوں سے کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا ہے۔‘

علاقے کی خواتین کیا کہتی ہیں؟

‎صائمہ بیگم (فرضی نام ) کا تعلق ضلع کرم کے علاقے پاڑہ چنار سے ہے اور وہ پیشے کے لحاظ سے معلمہ ہیں۔

صائمہ کے مطابق وہ ’ایئر گن کا شکار ہونے والی خواتین میں سے تین کو جانتی ہیں اور ان خواتین میں سے ایک کے علاج معالجے میں بھی مدد کی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب پہلے یہ واقعات سامنے آنا شروع ہوئے تو علاقے میں یہ افوا پھیلائی گئی کہ یہ خواتین کسی غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔‘

صائمہ کے مطابق ’یہی وجہ تھی کہ ان خواتین نے ابتدائی واقعات میں بدنامی کے ڈر اور خوف سے ان واقعات کو پولیس میں رپورٹ نہیں کیا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ابتدا میں یہ بات پھیلائی گئی لیکن جب ایک خاتون کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنے شوہر کے ساتھ تھیں اور دوسری کو والد کے ساتھ نشانہ بنایا گیا تو یہ بات جھوٹ ثابت ہو گئی اور لوگ بھی الرٹ ہو گئے ہیں کہ تمام خواتین کو بازاروں میں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘

صائمہ بیگم نے مزید بتایا کہ ’ابھی بھی خواتین کے اندر خوف ضرور موجود ہے کیونکہ ظاہری بات ہے جب خواتین کو اس طرح نشانہ بنایا جاتا ہے تو خوف تو ہو گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں خود شادی شدہ خاتون ہوں اور جہاں میری ڈیوٹی ہے وہ پیدل فاصلے پر ہے لیکن ڈر کی وجہ مجھ سمیت دیگر ساتھیوں نے اپنے لیے گاڑی ہائر کی ہے۔‘

صائمہ  بیگم سے جب پوچھا گیا کہ ’جن خواتین کو ایئر گن سے شکار بنایا گیا ہے، کیا وہ خواتین اکیلی بازاروں میں گئی تھیں؟‘

اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’ان میں سے دو واقعات کا مجھے پتہ ہے جن میں ایک خاتون کے ساتھ ان کا شوہر اور دوسرے میں ان کا والد بھی کسی ضروری کام سے بازار گئے لیکن ان کو بھی بازار میں ایئر گن کا نشانہ بنایا گیا تھا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین