میانوالی: آئی جی پنجاب کا کنڈل چیک پوسٹ کا دورہ

آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے اتوار کو دیگر سینیئر افسران کے ہمراہ کنڈل کی چیک پوسٹ کا دورہ کیا اور ’حملے کو ناکام‘ بنانے والے جوانوں سے ملاقات کی۔

آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے اتوار کو میانوالی میں پی ایچ پی چیک پوسٹ کنڈل کا دورہ کیا جہاں پولیس اہلکاروں نے انہیں گذشتہ رات کے واقعے کے حوالے سے تفصیلات بتائیں (تصویر: پنجاب پولیس)

پنجاب پولیس نے کہا کہ میانوالی میں حملہ آوروں نے ہفتے کی شب کنڈل کے مقام پر پیٹرولنگ پوسٹ پر حملہ کیا جس میں ہیڈ کانسٹیبل جان سے گئے جبکہ جوابی کارروائی میں دو ’دہشت گرد‘ بھی مارے گئے۔

آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے ایک بیان میں کہا کہ ’تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں‘ نے کنڈل پوسٹ پر حملہ کیا تاہم جوابی کارروائی میں دو حملہ آور مارے گئے اور ایک زخمی ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ 10 سے 12 حملہ آوروں نے پیٹرولنگ پوسٹ پر حملہ کیا تھا جس کے بعد جوابی کارروائی سے ’حملہ ناکام‘ بنا دیا گیا اور فرار ہونے والوں کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے۔

پنجاب پولیس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے اتوار کو دیگر سینیئر افسران کے ہمراہ کنڈل کی چیک پوسٹ کا دورہ کیا اور ’حملے کو ناکام‘ بنانے والے جوانوں سے ملاقات کی۔

بیان کے مطابق آئی جی پنجاب نے چیک پوسٹ پر تعینات تمام اہلکاروں میں 30 لاکھ جبکہ آپریشن کرنے والے محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں کو پانچ لاکھ روپے انعام دیا۔

اس موقع پر آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ ’کنڈل چیک پوسٹ کا نام شہید ہیڈ کانسٹیبل ہارون خان کے نام پر رکھا جائے گا۔‘

اس سے قبل آئی جی پولیس کا کہنا تھا کہ ’حملہ آوروں نے کافی دیر تک عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی جبکہ جوابی کارروائی کے بعد رات گئے بھی پولیس پوری طرح الرٹ رہی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ مرنے والے ’شرپسند ملک بھر میں دہشت گردی کی کئی کارروائیوں میں ملوث تھے۔‘

ڈاکٹر عثمان کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے حملہ آوروں کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔

پنجاب پولیس ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ دونوں حملہ آوروں کی شناخت کے لیے نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرہ) اور دیگر ذرائع استعمال کیے جا رہے ہیں۔

دوسری جانب کالعدم ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے ایک بیان میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی، جس میں کہا کہ حملہ آوروں نے ’ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا۔‘

تاہم آئی جی پنجاب نے جیو نیوز سے گفتگو میں کہا: ’اس حملے میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ دو سے چار گھنٹوں میں حملہ آوروں کی شناخت ہو جائے گی، جبکہ خفیہ معلومات پر مبنی آپریشن جاری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ملک میں حال ہی میں دہشت گردی کی لہر جارہی ہے۔ 12 ربیع الاول کو بلوچستان کے شہر مستونگ میں عید میلاد النبی کے جلوس اور خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو کی ایک مسجد میں خودکش حملے ہوئے ہیں جن میں کم از کم 50 سے زائد اموات ہوئی ہیں جب کہ متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں۔

مستونگ حملے میں جان سے جانے والوں میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) نواز گشکوری بھی شامل تھے، جو علاقے میں حفاظتی انتظامات کی نگرانی کر رہے تھے۔

ایک سینیئر پولیس افسر جاوید لہڑی نے روئٹرز کو بتایا: ’نواز گشکوری نے خودکش حملہ آور کو روکنے کی کوشش کی، لیکن اس نے ان کے قریب پہنچ کر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔‘

انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس عبدالخالق شیخ نے جمعے کو بتایا تھا کہ ابتدائی شواہد کے مطابق دھماکہ خودکش تھا، جس میں چھ سے آٹھ کلو گرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔

حملوں کے حوالے سے نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ’ریاست نے فیصلہ کیا ہے ’دہشت گردوں کے محفوظ‘ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے گا اور ’آخری دہشت گرد‘ تک کارروائی کی جائے گی۔

جبکہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے ہفتے کو کوئٹہ کا دورہ کیا تھا۔ جہاں انہیں مستونگ اور ژوب میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملوں کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ ’12 ربیع الاول کو ہونے والی دہشت گردی اور اس طرح کے واقعات خوارج کے مذموم عزائم کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس دہشت گردی کو بیرونی ریاستی سرپرستوں کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان