نواز شریف کی واپسی کا مقصد کیا ہے؟ کیا وہ محض انتخابی سیاست کرنے اور ایک بار پھر وزیر اعظم بننے آ رہے ہیں یا وہ اس کشمکش اقتدار سے بلند ہو کر ملک اور قوم کے لیے کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
اگر وہ چوتھی بار وزیر اعظم پاکستان بننے کے ارادے سے تشریف لا رہے ہیں تو ان کا آنا نہ آنا برابر ہے لیکن اگر وہ خود کو کشمکش سیاست سے بلند کر کے کسی بڑے مقصد کی جانب بڑھنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ان کی واپسی ملک کے لیے ایک نئے دور کی ابتدا ہو سکتی ہے۔
میاں نواز شریف کی عمر 73 سال ہے۔ بظاہر یہ عمر انتخابی سیاست کی مشقت اٹھانے کے لیے موزوں نہیں ہے۔ انتخابی سیاست کی معراج وزارت عظمی کا حصول ہوتا ہے، میاں صاحب تین مرتبہ وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ بطور وزیر اعظم پاکستان میں سب سے طویل دورانیہ میاں صاحب کا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وہ وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔
اس منصب کے ساتھ اگر کوئی رومان ہو تو وہ اب تک ختم ہو جانا چاہیے۔ اتنا طویل عرصہ اقتدار میں رہنے کے بعد اقتدار کی مزید کوئی خواہش یا حسرت بھی باقی نہیں رہتی۔ عمر کے اس حصے میں بطور وزیر اعظم وہ کوئی انقلاب لانے سے بھی رہے۔ سوال پھر یہ ہے کہ وہ واپس آ کر کیا کریں گے؟
کیا وہی جوڑ توڑ اور مفاہمت کی انتخابی سیاست، جس میں تمام آدرش مٹی میں ملا کر بالآخر وزارت عظمی کا حلف اٹھانے کا اعزاز حاصل ہوتا ہے؟ عشروں پہلے جو پہیہ ایجاد ہو چکا، میاں صاحب اگر اسے نئے سرے سے ایجاد کریں گے تو یہ کوئی بڑا یا غیر معمولی کام نہیں ہو گا۔ وہ واپس آئیں یا نہ آئیں، کوئی فرق نہیں پڑنے والا کیونکہ اس میدان میں یہ کام کرنے کے لیے اب ان سے زیادہ تجربہ کار اور زیادہ تازہ دم کھلاڑی موجود ہیں۔
ہاں البتہ اگر وہ انتخابی سیاست سے بالاتر ہو کر ایک ’سٹیٹس مین‘ کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہوں تو کرنے کو بہت کچھ ایسا ہے جس میں نواز شریف کی مقبولیت تجربے اور سیاسی قد کاٹھ کے سامنے کوئی متبادل اور مقابل موجود نہیں ہے۔ انتخابی سیاست سے بلند ہو کر اس ملک کے لیے جو کچھ وہ کر سکتے ہیں، اور کوئی نہیں کر سکتا۔
وہ ایک مقبول اور تجربہ کار سیاسی شخصیت ہیں۔ تجربے کے باب میں آصف زرداری بھی ان کے مقابل ہیں لیکن ان کے پاس زاد راہ محدود ہے۔ ان کا تجربہ سیاسی جوڑ توڑ میں تو کام آ سکتا ہے لیکن انتخابی سیاست سے اٹھ کر اخلاقی بنیادوں پر کوئی بڑا کام کرنے کی صلاحیت ان میں شاید اتنی نہیں ہے۔
مولانا فضل الرحمان بھی ایک زیرک اور دانا سیاسی شخصیت ہیں لیکن وہ کسی ریاستی یا اعلیٰ حکومتی منصب پر فائز نہیں رہے اور ان کی سیاسی حیثیت کا دائرہ کار بھی محدود ہے۔
نواز شریف اپنی مقبولیت، تجربے اور سیاسی حیثیت میں ان دونوں شخصیات سے آگے ہیں۔ بات اب صرف افتاد طبع کی ہے کہ کیا میاں صاحب انتخابی سیاست ہی کے تقاضوں کے اسیر ہو کر رہ جائیں گے یا وہ اس سے کچھ بڑا سوچ سکیں گے۔
وہ اگر انتخابی سیاست اپنی جماعت کی دوسرے درجے کی قیادت کے سپرد کرتے ہوئے یہ اعلان کر دیں کہ وہ وزارت عظمی کے امیدوار نہیں ہوں گے اور الیکشن جیتنے کی صورت میں وہ حکومت سے باہر رہ کر حکومت کی اصلاح ، مشاورت اور رہنمائی تک محدود رہتے ہوئے اقتدار سے بڑے مقصد کے لیے کام کریں گے تو یہ نسبتاً زیادہ بڑا اور شاندار اقدام ہو گا۔
پاکستان میں فالٹ لائنز بڑھتی جا رہی ہیں۔ قومی سیاست سمٹتی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی عملا سندھ کی جماعت بن کر رہ چکی ا ور مسلم لیگ ن جی ٹی روڈ کے اطراف کی جماعت ہے۔ چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی بڑھ رہا ہے کہ قومی زندگی کی فیصلہ سازی میں انہیں لاتعلق کر دیا گیا ہے۔ نواز شریف چاہیں تو وہ قومی وحدت کا پرچم اٹھا سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ بھلے اپنی جماعت کی تنظیم سازی ہی کو لے کر آگے بڑھیں لیکن ان کی منزل وزیر اعظم ہاؤس یا پارلیمان نہیں ہے۔ ان کی منزل بلوچستان، کے پی اور سندھ کے دور دراز کے علاقے ہونے چاہییں جہاں قومی سطح کے سیاست دان کبھی گئے ہی نہیں۔
دوری، تلخی اور محرومی کا احساس بڑھ رہا ہے۔ قومی سیاست چند بڑے شہروں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ جب صرف لاہور کی قومی اسمبلی کی نشستیں قریب قریب پورے بلوچستان کے برابر ہوں تو کسی کو کیا پڑی ہے وہ بلوچستان کی خاک چھانتا رہے۔
لیکن اگر کوئی سیاست دان انتخابی سیاست سے بلند ہو کر چیزوں کو دیکھے تو اسے معلوم ہو گا کہ قومی وحدت کے لیے چھوٹے صوبوں میں قومی سیاست دانوں کا جانا اور بار بار جانا کتنا ضروری ہو چکا ہے۔
مسلم لیگ آج تک ایک بھرپور سیاسی تنظیم نہیں بنا سکی۔ سیاسی نظم کے بغیر سیاسی جماعت ادھوری ہے۔ اہل سیاست کا خوف پارٹی کو خاندان سے باہر نکلنے ہی نہیں دیتا ، اور یہ خوف بلاوجہ بھی نہیں۔ لیکن نواز شریف چاہیں تو وہ اس خوف سے بے نیاز ہو کر مسلم لیگ ن کو ایک حقیقی سیاسی جماعت بنا سکتے ہیں۔
اہل سیاست میں بڑھتی تلخی کے ہنگام ایک میثاق اخلاقیات کی بھی شدید ضرورت ہے۔ اقتدار کی صف بندی سے بے نیاز ہو کر معاشی مبادیات وضع کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ سیاسی کارکنان کی تربیت اور احترام باہمی پر مبنی سیاسی کلچر کے فروغ کی بھی ضرورت ہے۔
نواز شریف صاحب اقتدار کی سیاست سے آگے نکل سکیں تو یہ سیاست اور یہ سماج قدم قدم پر رفو گری کا طالب ہے۔ گر یہ نہیں تو بابا باقی کہانیاں ہیں۔ اس صورت میں آنا نہ آنا برابر ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔