سابق وزیراعظم نواز شریف کے جنرل (ر) باجوہ اور جنرل فیض کے خلاف کارروائی کے بیان اور سابق وزیر اعظم شہباز شریف کی اس کے فوری بعد لندن روانگی سے چہ مہ گوئیاں بڑھیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے معاملات بگڑ چکے ہیں۔
کئی روز یہ بحث چلتی رہی کہ ن لیگ کا بیانیہ پارٹی کے لیے مہنگا ثابت ہوا اور شہباز شریف کے ذریعے نوازشریف کو جو پیغام دیا گیا اس کے بعد ان کی واپسی میں تاخیر ہوگی یا پھر وہ منسوخ ہی ہو جائے گی۔
نواز شریف کے بیان سے مسائل پیدا ہوئے، لیکن وہ اتنے اہم نہیں تھے کہ ان کی واپسی یا ن لیگ کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات پر کوئی خاص اثر پڑے۔
لندن سے پنڈی تک سن گن یہی ہے کہ معاملات سارے ٹریک پر ہی ہیں۔
ن لیگ کس بیانیے کے ساتھ عام انتخابات میں اترے گی یہ یقیناً پارٹی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا کیوں کہ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ 16 ماہ کی حکومت نے پارٹی کی ووٹ بینک اور مقبولیت کو نقصان پہنچایا ہے۔
ایسے میں پارٹی کا احیا نواز شریف کے لیے ناممکن نہیں کیوں کہ وہ پہلے بھی ایسا کر چکے ہیں البتہ اس دفعہ مشکل ضرور ہوگا۔
تحریک انصاف سے ممکنہ ڈیل اور مائنس عمران خان فارمولے کی کچھ خبریں میڈیا میں تواتر سے آ رہی ہیں لیکن فی الحال تحریک انصاف سے کسی ڈیل کے کوئی امکانات نہیں۔ ابھی بھی محسوس یہی ہو رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نہ تو نو مئی کو اتنی آسانی سے بھول سکتی ہے نہ فوج کی ہائی کمان کو جلسوں میں دیے گئے القابات اور بے ہودہ ٹرینڈز کو فراموش کرنا آسان ہو گا۔
عمران ریاض کی واپسی ہو یا عمران خان کا اٹک سے اڈیالہ آنا، ان واقعات کو ڈیل سے جوڑنا غلط فہمی ہی ہے۔
نو مئی کے تذکرے سے 28 مارچ کا کالم ’عمران خان بند گلی میں‘ یاد آیا، اس کی چند سطور یہ ہیں کہ:
’پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان صاحب نے لاہور جلسے میں آخرکار اس حقیقت کو تسلیم کر لیا، جسے ابھی تک وہ جھٹلاتے آ رہے تھے۔ وہ اب اس بات کا کھل کر اظہار کر رہے ہیں کہ ان پر ’کراس‘ لگایا جا چکا ہے۔‘
’گو کہ اس اقرار میں وہ یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ انہیں کسی صورت اقتدار میں واپس آنے نہیں دے گی، لیکن ساتھ ہی وہ اب بلاواسطہ سہی، لیکن یہ بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ اقتدار کھونے کے بعد ان کے بیانیے اور سیاسی فیصلوں نے انہیں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’نام نہاد امریکی سازش سے امریکی تعاون تک کا سفر ہو، قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا عجیب و غریب فیصلہ ہو یا پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومت ختم کر کے اسمبلیاں تحلیل کرنے جیسے پاؤں پر کلہاڑی مارنا ہو، خان صاحب نے کسی کی نہ سنی اور نتیجتاً اپنی پارٹی کو بند گلی میں کمال مہارت سے لا کھڑا کیا۔‘
اب نو مئی والے دن ہی اتفاق سے میرے کالم کا دن تھا، جس کا عنوان تھا ’سیاست کا فائنل راؤنڈ شروع ہو چکا‘ اس کی چند سطور بھی پڑھنا ضروری ہیں:
’آج تحریک انصاف اپنے ہاتھوں خود ہی زیرعتاب آ چکی ہے، خان صاحب زمان پارک تک محدود ہو چکے ہیں لیکن انہوں نے پارلیمان کا کوئی ایسا فورم نہیں چھوڑا جہاں آج وہ حکومت کو ناکوں چنے چبوانے کی پوزیشن میں ہوتے۔
’آج خان صاحب سمجھتے ہیں کہ ان پر اسٹیبلشمنٹ کراس لگا چکی ہے تو ان سے سوال یہ بنتا ہے کہ جب حاضر سروس افسران سے علی الاعلان کھلی جنگ شروع کر دی جائے، ان پر قتل کی سازش کے الزامات لگا دیے جائیں، لندن اور امریکہ میں ان کی تصاویر پر جوتے برسائے جائیں، سوشل میڈیا پر حافظ اور حاجی کے سابقے اور لاحقے لگا کر ایسے بےہودہ ٹرینڈز شروع کر دیے جائیں تو کیا ریاست ستو پی کر سوتی رہے گی؟‘
نو مئی کا یہ کالم آٹھ مئی کی شام تحریر کیا گیا، اس آخری پیراگراف سے آپ کو یہ جھلکتا نظر آئے گا کہ تحریک انصاف کے قائد جو حدیں پار کر چکے اور جو پار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ان سے وہ پارٹی کا ستیاناس کر دیں گے۔
بدقسمتی، نو مئی کو وہی ہوا جس کا خدشہ میں بار بار ظاہر کر رہا تھا۔ اس کے بعد جو تحریک انصاف کے ساتھ ہوا، اس کی ذمہ داری پارٹی قائد کے انتہائی غلط سیاسی فیصلوں پر نہ ڈالی جائے تو زیادتی ہوگی۔
اب کونسی ڈیل کس چیز کی ڈیل؟
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی رائے پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔