غزہ کی نگرانی کے باوجود اسرائیلی جاسوس کیسے ناکام ہو گئے؟

اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے قومی سلامتی کے سابق مشیر یاکوف ایمڈرور کے بقول: ’یہ ایک بڑی ناکامی ہے۔ یہ آپریشن دراصل ثابت کرتا ہے کہ غزہ میں انٹیلی جنس کی صلاحیتیں اچھی نہیں تھیں۔‘

ایک فلسطینی نو اکتوبر 2023 کو غزہ میں ایک مسجد کی طرف اشارہ کر رہا ہے جو اسرائیلی فضائی حملے میں تباہ ہو گئی (اے ایف پی)

غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں پر ہمیشہ اسرائیل کی نظر رہتی ہے۔ نگرانی کرنے والے ڈرونز کی آواز مسلسل آسمان سے آتی رہتی ہے۔ انتہائی محفوظ سرحد سکیورٹی کیمروں اور فوجیوں سے بھری ہوئی ہے۔ انٹیلی جنس ایجنسیاں معلومات حاصل کرنے کے لیے ذرائع اور سائبر صلاحیتوں سے کام لیتی ہیں۔

لیکن ایسا لگتا ہے کہ عسکریت پسند تنظیم حماس کے غیرمعمولی حملے کے پیش نظر اسرائیل کی آنکھیں بند ہو گئی  ہیں۔ اس حملے کے دوران سینکڑوں عسکریت پسند اسرائیلی سرحدی رکاوٹیں توڑ اسرائیل میں داخل ہو گئے، جس میں سینکڑوں افراد مارے جا چکے ہیں اور خطہ ایک تنازع کا شکار ہو گیا ہے۔

اسرائیل کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے کئی دہائیوں کے دوران کئی کامیابیوں کے باعث ناقابل تسخیر ہونے کا تاثر حاصل کیا ہے۔

 اسرائیل نے مغربی کنارے میں سازشوں کو ناکام بنایا، دبئی میں حماس کے کارکنوں کو مبینہ طور پر نشانہ بنایا اور اس پر ایران کے مرکز میں ایرانی جوہری سائنسدانوں کو مارنے  کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ جب ان کی کوششوں کو دھچکا لگا، تب بھی موساد، شین بیت اور ملٹری انٹیلی جنس جیسی ایجنسیوں نے اس وقت بھی اپنا اسرار برقرار رکھا ہے۔

لیکن اس ہفتے کے آخر میں ہونے والے اس حملے، جس نے یہودیوں کی اہم چھٹی والے دن اسرائیل کو حیرت میں ڈال دیا، نے اس ساکھ کو شکوک و شبہات میں ڈال دیا ہے اور ایک کمزور لیکن پرعزم دشمن کے سامنے ملک کی تیاری کے بارے میں سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

 24 گھنٹے بعد بھی حماس کے عسکریت پسند اسرائیلی علاقے کے اندر اسرائیلی افواج سے لڑتے رہے اور درجنوں اسرائیلی غزہ میں حماس کی قید میں تھے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے قومی سلامتی کے سابق مشیر یاکوف ایمڈرور کے بقول: ’یہ ایک بڑی ناکامی ہے۔ یہ آپریشن دراصل ثابت کرتا ہے کہ غزہ میں انٹیلی جنس کی صلاحیتیں اچھی نہیں تھیں۔‘

ایمڈرور نے ناکامی کی وضاحت پیش کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ دھول چھٹنے کے بعد سبق سیکھنا ضروری ہے۔

فوج کے چیف ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہاگری نے تسلیم کیا کہ فوج عوام کے سامنے وضاحت پیش کرنے کی ذمہ دار ہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ اب وہ وقت نہیں ہے۔ ’پہلے ہم لڑیں گے، پھر تحقیقات کریں گے۔‘

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ صرف انٹیلی جنس کی غلطی کو مورد الزام ٹھہرانا قبل از وقت ہو گا۔ ان کا اشارہ مغربی کنارے میں تشدد کی لہر کی جانب ہے جس سے کچھ فوجی وسائل وہاں منتقل ہوئے اور نتن یاہو کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کی عدلیہ پر چڑھائی کے اقدامات پر اسرائیل کو سیاسی انتشار میں دھکیل دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس متنازع منصوبے نے ملک کی طاقتور فوج کے اتحاد کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

لیکن ان واقعات کے سلسلے میں حماس کی سازش کے بارے میں پیشگی معلومات کی کمی کو ممکنہ طور پر ایک اہم جرم کے طور پر دیکھا جائے گا جو دہائیوں میں اسرائیلیوں کے خلاف مہلک ترین حملے کا سبب بنے۔

اسرائیل نے 2005 میں غزہ کی پٹی سے اپنے فوجیوں اور آباد کاروں کو واپس بلا لیا تھا، جس کے نتیجے میں اس کا اس علاقے پر گرفت ہلکی پڑ گئی تھی۔ لیکن 2007 میں حماس کے غزہ پر قبضے کے بعد  بھی اسرائیل تکنیکی اور انسانی انٹیلی جنس کا استعمال کرتے ہوئے اپنی برتری برقرار رکھتا دکھائی دیا۔

اسرائیل کا دعویٰ تھا کہ اس نے حماس کی قیادت کے درست ٹھکانوں کی نشان دہی کی ہے، اور بظاہر  سرجیکل سٹرائیکس میں عسکریت پسند رہنماؤں کے قتل کے ذریعے اس بات کو ثابت بھی کیا۔ بعض اوقات یہ قتل ایسے وقت ہوئے جب اپنے بیڈرومز میں سو رہے ہوتے تھے۔

اسرائیل جانتا ہے کہ حماس کی سرنگوں کو کہاں نشانہ بنایا جائے جو جنگجوؤں اور اسلحے کی نقل و حمل کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ اسرائیل نے کئی میلوں پر محیط خفیہ راہداریاں تباہ کی ہیں۔

ان صلاحیتوں کے باوجود حماس اپنے منصوبے کو پوشیدہ رکھنے میں کامیاب رہی۔ یہ حملہ، جس میں ممکنہ طور پر مہینوں کی منصوبہ بندی اور محتاط تربیت اور متعدد عسکریت پسند گروہوں کے درمیان ہم آہنگی شامل تھی، اسرائیل کے انٹیلی جنس ریڈار کے نیچے سے گزر گیا۔

ایک ریٹائرڈ اسرائیلی جنرل عامر ایویوی نے کہا کہ غزہ کے اندر انسانی موجودگی کے بغیر، اسرائیل کی سکیورٹی سروسز انٹیلی جنس حاصل کرنے کے لیے تکنیکی ذرائع پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرنے لگی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں عسکریت پسندوں نے تکنیکی انٹیلی جنس جمع کرنے سے بچنے کے طریقے سیکھ لیے ہیں، جس سے اسرائیل کو ان کے عزائم کی نامکمل تصویر ملتی ہے۔

سابق فوجی چیف آف سٹاف کے دور میں انٹیلی جنس مواد کے ذرائع کے طور پر کام  کرنے والے ایووی نے کہا، ’دوسرے فریق نے ہماری تکنیکی بالادستی سے نمٹنا سیکھا اور انہوں نے ایسی ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا بند کر دیا جو اسے منظرعام پر لا سکتی ہے۔‘

ایویوی اسرائیل ڈیفنس اینڈ سکیورٹی فورم کے صدر اور بانی ہیں، جو سابق فوجی کمانڈروں کا ایک سخت گیر گروپ ہے۔

’وہ دوبارہ پتھر کے زمانے میں چلے گئے ہیں۔‘ انہوں نے وضاحت کی کہ عسکریت پسند فون یا کمپیوٹر استعمال نہیں کرتے اور وہ اپنے حساس کام ان کمروں میں کر رہے ہیں جو خاص طور پر تکنیکی جاسوسی سے محفوظ یا زیر زمین ہیں۔

لیکن ایویوی نے کہا کہ یہ ناکامی صرف انٹیلی جنس اکٹھا کرنے تک محدود نہیں، اس سے آگے تک ہے اور اسرائیل کی سکیورٹی سروسز ان معلومات سے درست تصویر بنانے میں ناکام رہی جو انہیں موصول ہو رہی تھیں، جس کی وجہ ان کے خیال میں اسرائیل کی حماس کے ارادوں کے متعلق غلط فہمی تھی۔

اسرائیل کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے حالیہ برسوں میں حماس کو ایک ایسے کردار کے طور پر دیکھا جس کی دلچسپی غزہ کی معیشت کو ترقی دینے اور غزہ کے 23 لاکھ لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں ہے۔

ایویوی اور دیگر کے بقول حقیقت یہ ہے کہ حماس، جو اسرائیل کے خاتمے کا مطالبہ کرتی ہے، اب بھی اس مقصد کو اپنی ترجیح کے طور پر دیکھتی ہے۔

اسرائیل نے حالیہ برسوں میں غزہ سے 18 ہزار فلسطینی مزدوروں کو اسرائیل میں کام کرنے کی اجازت دی ہے، جہاں وہ غریب ساحلی پٹی کے مقابلے میں تقریباً 10 گنا زیادہ تنخواہ لے سکتے ہیں۔ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اس ’گاجر‘ کو نسبتاً پرامن رہنے کے ایک طریقے کے طور پر دیکھتی ہے۔

 

روزنامہ ہاریٹز میں دفاعی مبصر آموس ہریل نے لکھا، ’عملی طور پر حماس کے ہزاروں نہیں تو سینکڑوں افراد معلومات افشا کیے بغیر کئی ماہ سے اچانک حملے کی تیاری کر رہے تھے،‘ جس کے ’نتائج تباہ کن ہیں۔‘

اسرائیل کے ساتھ انٹیلی جنس معلومات شیئر کرنے والے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ سکیورٹی ایجنسیاں حقیقت کو ٹھیک طریقے سے نہیں سمجھ رہی تھیں۔

مصری انٹیلی جنس کے ایک عہدیدار نے کہا کہ مصر، جو اکثر اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرتا ہے، نے اسرائیلیوں کے ساتھ ’کسی بڑی چیز‘ کے بارے میں بار بار بات کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکام کی توجہ مغربی کنارے پر مرکوز تھی اور انہوں نے غزہ کے خطرے کو نظر انداز کیا۔

 نتن یاہو کی حکومت مغربی کنارے کے یہودی آباد کاروں کے حامیوں پر مشتمل ہے جنہوں نے گذشتہ 18 ماہ کے دوران وہاں تشدد کی بڑھتی ہوئی لہر کے پیش نظر سکیورٹی کریک ڈاؤن کا مطالبہ کیا ہے۔

عہدیدار چونکہ میڈیا کے ساتھ حساس انٹیلی جنس مباحثوں کے مواد پر تبادلہ خیال کرنے کے مجاز نہیں تھے، لہذا انہوں نے ام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا: ’ہم نے انہیں متنبہ کیا کہ ایک دھماکہ خیز صورت حال آنے والی ہے، اور بہت جلد، اور یہ بہت بڑی ہو گی، لیکن انہوں نے اس طرح کے انتباہوں کو نظر انداز کیا۔‘

اسرائیل، نتن یاہو کے عدالتی اصلاحات کے منصوبے کی وجہ سے بھی مصروف اور تقسیم کا شکار ہے۔

نتن یاہو کو ان کے دفاعی سربراہوں سمیت ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کئی سابق رہنماؤں کی جانب سے بار بار خبردار کیا گیا تھا کہ یہ تفرقہ انگیز منصوبہ ملک کی سکیورٹی سروسز کے اتحاد کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

اوباما انتظامیہ کے دور میں اسرائیل فلسطین مذاکرات کے لیے خصوصی ایلچی کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے مارٹن انڈیک کا کہنا تھا کہ قانونی تبدیلیوں پر اندرونی اختلافات ایک سنگین عنصر تھا جس کی وجہ سے اسرائیلیوں توقع کے برعکس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔

انہوں نے کہا، ’انہوں نے آئی ڈی ایف کو ایسے پریشان کیا، میرے خیال میں، ہمیں پتہ چلا کہ اس سے توجہ بہت زیادہ ہٹ گئی تھی۔‘

ایسوسی ایٹڈ پریس کے قاہرہ میں سامی میگڈی اور  واشنگٹن میں عامر مدنی کی رپورٹنگ بھی اس خبر میں شامل ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا