خشک پہاڑوں میں گری آبادی، کچی سڑک، مٹی اور پتھروں سے بنے گھر، منہدم دیواریں، ننگے پاؤں گھومتے پھرتے بچے، سکول اور بنیادی مرکز صحت کی بوسیدہ عمارتیں، پینے کے صاف پانی اور زندگی کی دیگر تمام بنیادی سہولیات سے محروم مکین!
یہ تصویر پاکستان کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے آبائی گاؤں سرہ خولہ، کان مہترزئی کی ہے۔
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے مشرق کی جانب صوبے کا سرد ترین علاقہ کان مہترزئی واقع ہے۔ یہ علاقہ سطح سمندر سے تقریباً سات ہزار تین سو فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔
یہ ضلع قلعہ سیف اللہ کی تحصیل مسلم باغ سے متصل ذیلی تحصیل ہے۔ مسلم باغ اگرچہ کرومائیٹ کی درآمد کے حوالے سے جانا جاتا ہے، تاہم کان مہترزئی سیب کے باغات کے لیے ملکی سطح پر شہرت کا حامل علاقہ ہے۔
علاوہ ازیں ایشیا کے بلند ترین مقام پر واقع تاریخی ریلوے سٹیشن بھی کان مہترزئی ہی میں موجود ہے، جس کی تعمیر 1916 میں ہوئی تھی۔
کان مہترزئی بازار سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر شمال کی جانب پہاڑی درے میں ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، جس کا نام ’سرہ خولہ‘ ہے۔ پشتو زبان کے الفاظ ’سرہ خولہ‘ کا مطلب سرخ پہاڑی درہ ہے۔
ملک کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے آباؤاجداد یہاں رہائش پذیر تھے اور ان کا مٹی اور پتھروں سے تعمیر کیا گیا گھر آج بھی خستہ حالت میں موجود ہے۔ اگرچہ انوار الحق کاکڑ نے یہاں وقت نہیں گزارا تاہم سرہ خولہ گاؤں ان کے والد اور دادا کا مسکن رہا ہے۔
70 سالہ حاجی محمد نور اگرچہ اس گاؤں سے تعلق رکھنے والے انوار الحق کے نگران وزیراعظم کے منصب تک پہنچنے پر فخر محسوس کرتے ہیں، تاہم وہ حکومتی عدم توجہی اور علاقے میں سہولیات کے فقدان کے باعث شکوہ کناں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ دورِ جدید میں بھی پتھر کے زمانے جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بارشوں اور برف باری میں ان کا شہر سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے اور بچے تعلیم سے، خواتین علاج معالجے سے اور نوجوان روزگار سے محروم ہیں۔
بقول محمد نور: ’نگران وزیراعظم کے گاؤں میں ان کے آباؤاجداد کا گھر آج بھی منہدم حالت میں موجود ہے، جو اس علاقے کی پسماندگی اور غربت کی غماز ہے۔ علاقے کے لوگ صحت، تعلیم اور آبنوشی کی سہولیات سے یکسر محروم ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
روایتی پگڑی پہنے سفید ریش محمد نور نے نگران وزیراعظم کو علاقے کا دورہ کرنے کی دعوت دیتے ہوئے بتایا کہ وہ یہاں کے لوگوں کے حالات زندگی کا جائزہ لے کر ان کی مشکلات اور مصائب کا ازالہ کریں۔
’دھرتی کے فرزند نگران وزیراعظم پاکستان کو چاہیے کہ وہ کان مہترزئی کو دیگر علاقوں کے برابر لانے اور پسماندگی کے خاتمے کے لیے اپنا کیا گیا وعدہ پورا کریں۔ مسلم باغ کو ضلع کا درجہ دیا جائے، علاقے کو گیس فراہم کی جائے، مراکز صحت اور تعلیمی ادارے تعمیر کیے جائیں اور سڑک پختہ کی جائے۔‘
30 سے 40 گھرانوں پر مشتمل اس گاؤں کے بچے اور خواتین دور دراز علاقوں سے پانی لانے پر مجبور ہیں۔ بوائز سکول کی عمارت تو خستہ حال ہے ہی، یہاں کی لڑکیوں کے لیے گرلز سکول موجود تک نہیں۔
کان مہترزئی کے دیگر دیہات کی حالت بھی سرہ خولہ سے زیادہ مختلف نہیں۔ گذشتہ سال کی طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں میں رابطہ سڑکیں بہہ گئیں اور زرعی زمینوں کو بھاری نقصان پہنچا۔
علاقہ مکینوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تاحال ان کے نقصانات کا تخمینہ تک نہیں لگایا گیا۔ متاثرین میں سے ایک کان مہترزئی کے علاقے زوغلونہ سیوری مہترزئی سے تعلق رکھنے والے نظام الدین کاکڑ بھی ہیں، جو سیلابی ریلے میں منہدم ہونے والے گھر اور متاثرہ سیب کے باغ کو چھوڑ کر مسلم باغ میں رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔
انہوں نے بتایا: ’پچھلے سال کی طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث بڑے پیمانے پر آبادی اور زرعی اراضی کو نقصان پہنچا۔ یہاں کی بنیادی ضروریات صاف پانی، صحت، تعلیم اور زراعت کا فروغ ہے۔ یہاں کے منہدم اور کھنڈرات میں تبدیل ہونے والے گھر ہماری بے بسی کی تصویر پیش کررہے ہیں۔‘
نظام الدین نے انوار الحق کاکڑ کو نگران وزیراعظم بننے پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ وہ بلاتفریق بلوچستان کے عوام کی خدمت کریں گے۔
’وزیراعظم پاکستان کے آبائی علاقے سے تعلق رکھنے والے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے دیگر مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم نسواں پر توجہ دی جائے اور یہاں کے لوگوں کی علمی تشنگی کے پیش نظر طلبہ کو سکالر شپس دی جائیں تاکہ وہ صوبے سے باہر بہترین تعلیمی اداروں میں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوسکیں۔‘
نظام الدین سمیت کان مہترزئی کے ہزاروں لوگ اب نہ صرف انوار الحق کاکڑ کے وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ یہ آس بھی لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ عنقریب انہیں مشکلات سے چھٹکارا دلائیں گے، جس کا وعدہ انہوں نے علاقے کے لوگوں سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔