بلوچستان: شہریوں کا ’خونی شاہراہ‘ کو دو رویہ کرنے کا مطالبہ

نیشنل ٹراسپورٹ اینڈ ریسرچ سینٹر کے مطابق رواں سال صوبے میں 497 حادثات میں 318 افراد جان سے گئے جب کہ چھ سو سے زائد زخمی ہوئے۔

رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کو دیگر صوبوں کے علاوہ ایران اور افغانستان سے ملانے والی کراچی – کوئٹہ شاہراہ این – 25 کو آئے روز ٹریفک حادثات میں جانوں کے ضیاع کی وجہ سے مقامی لوگ ’خونی شاہراہ‘ کہتے ہیں۔

کراچی کو کوئٹہ سے ملانے والی 813 کلومیٹر طویل شاہراہ بلوچستان کے مختلف شہروں سے گزرتی ہے جن میں ضلع کراچی کے بعد ضلع حب، لسبیلہ، خضدار، سوراب، قلات، مستونگ، کوئٹہ، پشین اور چمن شامل ہیں۔

صوبے کے شہروں کو دیہات، باقی شہروں اور صوبوں سے ملانے کے لیے یہ واحد شاہراہ ہے۔ اس کے علاوہ لنک روڈز بھی موجود نہیں۔ حادثات کے باعث مقامی لوگوں کا پرزور مطالبہ ہے کہ اس ایک رویہ سڑک کو جلد از جلد دو رویہ بنایا جائے۔

گذشتہ دنوں اس ایک رویہ سڑک پر پولیس اہلکار نذیر زین موٹر سائیکل حادثے میں جان سے گئے۔ ان کے والد حاجی محمد حیات نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس شاہراہ کو دو رویہ بنایا جائے تاکہ حادثات کو کم کیا جا سکے۔

چند ماہ قبل سوراب کے قریب کراچی - کوئٹہ قومی شاہراہ پر بلوچستان یونیورسٹی کی خاتون لیکچرار وردا عروج اپنے شوہر محمد فہیم سمیت ایک کمسن بچے کے ہمراہ ایک حادثے میں جان سے چلی گئیں۔

فہیم کے بھائی مفتی منصور احمد نے بتایا کہ ان کے دو بھتیجے حادثے کے کئی ماہ گزرنے کے باوجود آج بھی اپنے والدین کے بارے میں پوچھتے ہیں۔

بلوچستان میں رپورٹ شدہ اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ صوبے میں دہشت گردی سے زیادہ حادثات کی وجہ سے اموات ہوئیں۔

پاکستان سکیورٹی رپورٹ کے مطابق 2021 میں بلوچستان میں 81 کے قریب دہشت گردی کے واقعات ہوئے جن میں 136 اموات ہوئیں اور 345 لوگ زخمی ہوئے۔

نیشنل ٹرانسپورٹ اینڈ ریسرچ سینٹر کے مطابق رواں سال صوبے میں 497 حادثات میں 318 افراد جان سے گئے جب کہ 600 سے زائد زخمی ہوئے۔

پاکستان سکیورٹی رپورٹ کے مطابق 2022 کے دوران بلو چستان میں دہشت گردی کے 79 واقعات میں 271 اموات ہوئیں۔

دوسری جانب محکمہ شماریات کے مطابق اس سال صوبے کی شاہراہوں پر 5100 حادثات میں 239افراد فوت ہوئے جب کہ 2263 افراد شدید زخمی اور 6490 افراد معمولی زخمی ہوئے۔

اس شاہراہ پر حادثے کا شکار ہونے والے شہری نجیب زہری نے بتایا کہ ’صوبے میں اکثر حادثات رپورٹ نہیں ہوتے۔‘

 انہوں نے بتایا کہ ’آزاد مانیٹرنگ اور مقامی میڈیا سمیت ہائی ویز پولیس کا کہنا ہے کہ ایک سال کے دوران صوبے میں لگ بھگ سات ہزار سے زائد اموات روڈ حادثات کی وجہ سے ہوتی ہیں۔‘

اتنے حادثات پر مقامی لوگوں کے احتجاج کے بعد وفاقی حکومت نے 2021 میں این - 25 کو پہلے مرحلے میں چمن سے خضدار تک دو کیرج ویز میں تعمیر کرنے کا اعلان کیا تاہم یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہے۔

حال ہی میں نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کوئٹہ کے دورے کے موقعے پر مذکورہ شاہراہ کو تین میں مکمل کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی۔

2022 کے سیلاب نے بھی صوبے کی چھوٹی بڑی سڑکوں کو خستہ حال بنا دیا ہے۔

ڈی آئی جی ہائی ویز بلوچستان علی شیر جکھرانی کے مطابق اس شاہراہ پر 90 فیصد حادثات میں تیز رفتار گاڑیاں آمنے سامنے سے ٹکرا جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’اس شاہراہ پر کم رفتار والی گاڑیوں کو آنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم متبادل سڑکیں، سروس روڈ اورکوئی دوسرا نظام نہ ہونے کی وجہ سے ہر شخص کو یہ شاہراہ استعمال کرنی پڑتی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ تیز رفتاری پر قابو پانے اور ٹریفک کی مؤثر نگرانی سے حادثات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔

ہسپتالوں میں سہولیات کی فقدان کے سبب حادثات کے نتیجے میں اموات میں اضافہ

جھالاوان ٹیچنگ ہسپتال خضدار میں بطور میڈیکل آفیسر خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر محمد اکرم نے بتایا کہ ’خضدار بلوچستان کا ایک مرکزی پوائنٹ ہے جہاں سے کراچی کوئٹہ قومی شاہراہ گزرتی ہے۔

’بدقسمتی سے شاہراہ سنگل ہے جس کے باعث یہاں پر روزانہ کی بنیاد پر حادثات ہوتے ہیں۔ صرف خضدار میں روزانہ 10 سے 15 حادثات ہوتے ہیں اور مہینے میں تقریباً 250 سے زائد حادثات ہوتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہاں حادثے کی صورت میں رش کی وجہ سے مریضوں کو بروقت ہسپتال نہیں پہنچایا جا سکتا ہے جس سے جانیں ضائع ہوتی ہیں۔‘

این – 25 پر حادثات کی وجہ سے ڈرائیور حضرات بھی مشکل کا شکار ہیں۔

 کلیم اللہ نامی ایک ڈرائیور نے کہا کہ ’یہ سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جس کی وجہ سے حادثات ہوتے ہیں۔‘

 انہوں نے اسے جلد از جلد دو رویہ بنانے کا مطالبہ کیا۔

ایک اور ڈرائیور شبیر احمد نے بتایا کہ ’ایک رویہ سڑک کی وجہ سے سفرمکمل کرنے میں تین سے چار دن لگتے ہیں۔‘

نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹرویز پولیس ویسٹ زون سیکٹر قلات کے پٹرولنگ آفیسر محمد طارق عمرانی کا کہنا ہے کہ ’ہماری کوشش ہے کسی کو چالان کرتے وقت بھی روڈ سیفٹی آگاہی دیں۔ ہم رضاکارانہ طور پر چھٹیوں میں بھی سکولوں اور تقریبات میں روڈ سیفٹی آگاہی دیتے رہتے ہیں۔‘

سماجی کارکن اور صحافی یونس بلوچ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ’این 25 شاہراہ کا شمار پاکستان کے اہم ترین شاہراہوں میں ہوتا ہے لیکن اس شاہراہ کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں حادثات روزکا معمول بن گئے ہیں۔ اگر ٹریفک حادثات کا مجموعی طور پرپورے پاکستان میں جائزہ لیا جائے تو اس قومی شاہراہ پر سب سے زیادہ حادثات ہوتے ہیں۔

’یہاں موٹروے پولیس تعینات نہیں ہے جس کا ڈرائیور حضرات فائدہ اٹھاتے ہیں اور تیز رفتاری کرتے ہیں جو حادثات کا باعث بنتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان