لاہور کے ایچیسن کالج سے تعلق رکھنے والے بچوں نے ورلڈ روبوٹکس اولمپیاڈ میں پاکستان بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔ تین بچوں کی یہ ٹیم اب پاناما میں ہونے والے اسی مقابلے کے دوسرے راؤنڈ کے لیے بھی چنی جا چکی ہے۔
ایچیسن کالج کی جونئیر ٹیم جن کی عمریں 11 سے 15 سال ہیں، نے سمارٹ ہیلمٹ بنا کر پاکستان بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔
شیراز علی، ایان طارق اور عیسیٰ حسن چیمہ کا تیار کیا گیا یہ ہیلمٹ حادثات سے بچانے میں مددگار ہونے کے ساتھ ساتھ فوری طور پر کسی کو خودکار اطلاع بھی دے سکتا ہے۔
اس ٹیم کے سربراہ شیراز علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس مقابلے کے لیے بنیادی شرط یہ تھی کہ ’دنیا میں موجود کسی مسئلے کا حل پیش کیا جائے۔‘
’ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم سڑکوں پر حادثات روکنے کے لیے ایک ایسا ہیلمٹ بنائیں جو لوگوں کو بچا سکے۔ ہم نے اپنے سمارٹ ہیلمٹ میں مختلف فیچرز شامل کیے جیسے کولنگ سسٹم، اس کے ذریعے موٹر سائیکل چلانے والے کو نہ صرف ہیلمٹ کے اندر ہوا ملتی ہے بلکہ ہیلمٹ کے اندر لگے باقی پرزے بھی ٹھنڈے رہتے ہیں۔‘
شیراز نے بتایا کہ اس کے علاوہ ان کے سمارٹ ہیلمٹ میں لائٹ انڈی کیشن سسٹم بھی ہے۔ ’موٹر سائیکل چلانے والا اپنا سر جس بھی طرف ہلاتا ہے اس طرف کی لائٹ آن ہو جاتی ہے۔ اس سے پیچھے آںے والوں کو معلوم ہو جاتا ہے کہ موٹر سائیکل نے کس طرف مڑنا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تیسرے فیچرکے حوالے سے شیراز نے بتایا کہ ’اس ہیلمٹ میں ہیڈ لائٹ سسٹم کا فنکشن بھی شامل کیا ہے جو اندھیرے میں مدد کرے گا اور حادثات سے بچائے گا۔‘
اس ہیلمٹ کے باقی فیچرز کے حوالے سے ایان طارق نے بتایا کہ ’اس ہیلمٹ میں سمارٹ ایکسیڈنٹ الرٹ سسٹم بھی شامل ہے جو کسی حادثے کی صورت میں کام آسکتا ہے۔ جی پی ایس سسٹم لگانے کی وجہ سے حادثے کی صورت میں ہیلمٹ خود بخود اس شخص کے نمبر پر کال ملا دے گا جو آپ نے ایمرجنسی نمبر کے طور پر فون میں سیو کیا ہو گا اور اسی پر پیغام میں حادثے کی لوکیشن بھی چلی جائے گی۔‘
ٹیم کے تیسرے رکن عیسیٰ حسن نے بتایا کہ ان کے اس ہیلمٹ میں آڈیو سسٹم بھی ہے۔ ’آپ کی کالز ہیلمٹ کے اندر براہ راست آئیں گی اور ساؤنڈ ایمپلیفائر استعمال کر کے آپ اپنے ارد گرد کی آوازیں بھی ہیلمٹ کے اندر سن سکتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس فیچر کا فائدہ یہ ہوگا کہ ’موٹر سائیکل چلاتے ہوئے بار بار فون استعمال نہیں کرنا پڑے گا جس سے بڑی حد تک حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔‘