ہم سوشل میڈیا پر بعض اوقات ایسی باتیں کرتے ہیں جو کہنے اور سننے میں تو بہت اچھی لگتی ہیں لیکن ان کا حقیقی دنیا میں اطلاق اس طرح ممکن نہیں ہوتا۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
جیسے پچھلے دنوں ایکس (پرانے ٹوئٹر) پر ایک صارف نے پاکستانی عوام کو آرام طلب، کاہل اور سست کہتے ہوئے لکھا کہ وہ ہمیشہ مہنگائی کا رونا روتے رہتے ہیں لیکن اس مہنگائی کا علاج نہیں کرتے۔
انہوں نے لکھا کہ ترقی یافتہ ممالک میں لوگ اپنے بچوں کو اپنے گھروں کے قریب سکول میں داخل کرواتے ہیں۔ اپنا گھر اپنے کام کی جگہ کے پاس رکھتے ہیں تاکہ انہیں کام سے آنے جانے پر پیسے نہ خرچ کرنے پڑیں۔
انہوں نے لکھا کہ پاکستانی اپنے کام کی جگہ سے میلوں دور رہتے ہیں۔ بچوں کو گھروں کے پاس موجود سکولوں میں بھیجنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ انہیں اپنی جھوٹی انا کا علاج کرنا چاہیے۔
میں نے ان کی ٹویٹ کے جواب میں لکھا کہ مغرب نے اپنے مسائل کے جو حل نکالے ہیں انہیں پاکستان میں لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے گھروں کے پاس جو سکول ہوتے ہیں ان کا حال ہم سب جانتے ہیں۔
جس کے پاس گھر کا ایک پورشن خالی ہوتا ہے، وہ وہاں سکول کھول لیتا ہے۔ آس پاس کے گھروں میں فارغ بیٹھی لڑکیاں اور خواتین وقت گزاری کے لیے وہاں نوکریاں کر لیتی ہیں۔ نہ انہیں پڑھانے کا تجربہ ہوتا ہے نہ سکول کھولنے والے کو سکول چلانا آتا ہے۔ وہاں لوگ اپنے بچے کیسے بھیجیں؟
نوکری کے پاس گھر لینے کا بھی خوب کہا۔ پاکستانی معاشرہ مغرب کی طرح انفرادیت پر قائم نہیں ہے۔ یہاں لوگوں کو ایک ہی جگہ لمبے عرصے تک رہنے سے ایک دوسرے سے جو سہارا ملتا ہے، اس کا بدل کیا ہو گا۔
اس کے علاوہ، اگر کسی کا تعلق مذہی اقلیت سے ہو اور اس کی نوکری کے قریب اکثریت کی ہی رہائش ہو تو وہ وہاں جا کر کیسے رہ سکتا ہے۔ ہمارے لوگ کسی احمدی، شعیہ یا عیسائی کو اپنا گھر کرائے پر کیسے دیں گے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس ساری تشریح کے بعد مجھے احساس ہوا کہ وہ ٹویٹ بس کچھ اچھا لکھنے کے لیے کی گئی تھی۔ ورنہ سب کو پتہ ہے کہ ہمارے مسائل ایسے حل نہیں ہوں گے۔
ایسا ہی کچھ ’حادثہ‘ ڈراما بنانے والوں نے کیا۔ انہوں نے موٹر وے گینگ ریپ واقعہ سے متعلق سوشل میڈیا پر ہونے والی بحث کے مدِ نظر ایک ڈراما بنا دیا۔ یہ بھی نہیں سوچا کہ اس ڈرامے سے متاثرہ خاتون اور ان کے خاندان پر کیا بیتے گی۔
اس ڈرامے کی مرکزی کردار کو اصولوں کا پابند دکھایا گیا تھا۔ ان کے گھر کام کرنے والی ملازمہ کی بیٹی کو اس کا شوہر مارتا پیٹتا ہے۔ وہ اسے اپنے گھر لے آتی ہیں۔ ان کا اپنا داماد اس آدمی سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ اس کی بیوی کو واپس لائے گا۔ وہ اسے صاف کہہ دیتی ہیں کہ تم نے ایسا سوچا بھی کیسے۔ ہمارے ہاں داماد سے اس طرح سیدھی بات کون کرتا ہے؟
پھر ان کی ملازمہ اپنی بیٹی کو واپس اس کے شوہر کے گھر چھوڑ آتی ہے تو یہ کسی این جی او کے ذریعے اس آدمی کو انسان بننے کی دھمکی دلواتی ہیں۔ این جی او والوں کے جانے کے بعد وہ آدمی اپنی بیوی کو جی بھر کر مارتا ہے۔
پھر سمجھ آیا کہ یہ ڈراما سوشل میڈیا پر واہ واہ سمیٹنے کے لیے بنایا گیا تھا، اسی لیے اس کی کہانی حقیقی دنیا سے ملتی ہوئی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔
کاش ڈراما بنانے والے پہلے کسی این جی او والوں سے ہی بات کر لیتے کہ وہ لوگوں کو تشدد سے باز رکھنے کے لیے کن طریقوں کا استعمال کرتے ہیں۔
ان کے بیٹے پر ایک سردار کا بیٹا گولی چلا دیتا ہے۔ یہ اس کے خلاف کیس فائل کرتے ہیں۔ سردار ان کے شوہر سے صاف الفاظ میں کہتا ہے کہ وہ کیس واپس لے لیں ورنہ وہ تو نسلوں تک دشمنی چلانے کے عادی ہیں۔ ان کے شوہر کیس واپس لے لیتے ہیں۔
خاتون کو جب پتہ لگتا ہے تو وہ واویلا مچا دیتی ہیں۔ وہ قسط دیکھتے ہوئے میں حیران تھی کہ کیا انہیں اس ملک کا دستور نہیں معلوم۔ کیا وہ نہیں جانتی کہ اس ملک میں ایسے معاملات میں نہ پڑنا ہی عقل مندی ہے۔
پھر سمجھ آیا کہ یہ ڈراما سوشل میڈیا پر واہ واہ سمیٹنے کے لیے بنایا گیا تھا، اسی لیے اس کی کہانی حقیقی دنیا سے ملتی ہوئی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔
لوگوں کو آدھی بات بتا کر بقیہ بات چھپا لینا کسی طرح کا ایکٹیوزم نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر ہونے والی بحثوں کو سمجھنے اور ان پر عمل درآمد کرنے سے پہلے ہمیں حقیقی دنیا کے معاملات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ہمیں اپنے معاشرے کی حقیقتوں سے آگاہ ہونا چاہیے اور ان کے مطابق بات کرنی چاہیے۔ صرف اچھی باتیں کرنا کافی نہیں ہے۔ معاشرے کی تبدیلی سے پہلے ہمیں اپنا آپ تبدیل کرنا ہو گا۔
میڈیا کو بھی اپنا فرض سمجھتے ہوئے عوام کی تعلیم و آگاہی کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اس طرح سوشل میڈیا صرف وقت ضائع کرنے کا ذریعہ نہ رہ کر مثبت تبدیلی لانے کا باعث بن سکتا ہے۔