کشمیر آور کے دوران گزرا آدھا گھنٹہ

نہ صرف ٹریفک بلکہ پیدل چلنے والوں کو بھی دوپہر بارہ سے ساڑھے بارہ بجے تک چلنے کی اجازت نہیں تھی۔ یعنی اس آدھے گھنٹے کے لیے سب کچھ بالکل ساکت و جامد ہو جانا تھا۔

اسلام آباد میں کشمیر آور  کے سلسلے میں طالم علموں کا ایک جلوس (انڈپینڈنٹ اردو)

اسلام آباد کی کشمیر ہائی وے پر جمعے کی دوپہر جی نائن سگنل کا چوک تو جیسے کوئی پکنک سپاٹ بنا ہوا تھا۔ درجنوں چھوٹی بڑی گاڑیاں رکی ہوئی تھیں۔ کچھ لوگ گاڑیوں سے باہر سہانے موسم کا مزا لے رہے تھے۔ تو دوسرے اندر ہی بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔

چند ایک منچلے تو سڑک کے عین وسط میں بیٹھے سگریٹ کے کش لگاتے گپیں لگا رہے تھے۔ گاڑیوں سے باہر آنے والوں میں سے اکثر موبائل کیمرے سے رکی ہوئی ٹریفک کی ویڈیوز بنا رہے تھے۔

اس ماحول کے پس منظر میں ’کشمیر بنے گا پاکستان ‘کے نعرے بھی سنائی دے رہے تھے۔

کشمیر ہائی وے کا یہ چوک کوئی پکنک سپاٹ ہے اور نہ لوگ یہاں اچھا وقت بتانے آئے تھے، بلکہ یہاں ٹریفک کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کی خاطر روکی گئی تھی۔

اور نہ صرف ٹریفک بلکہ پیدل چلنے والوں کو بھی دوپہر بارہ سے ساڑھے بارہ بجے تک چلنے کی اجازت نہیں تھی۔ یعنی اس آدھے گھنٹے کے لیے سب کچھ بالکل ساکت و جامد ہو جانا تھا۔

رواں ہفتے قوم سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کشمیر کی عوام سے یکجہتی کے اظہار میں ستمبر میں اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس تک ہر ہفتے پاکستانی شہری آدھے گھنٹے کے لیے گھروں، دفاتر اور تعلیمی اداروں سے باہر نکلیں۔ 

وزیراعظم عمران خان نے آج وزیراعظم سیکریٹیریٹ میں کشمیر سے یکجہتی کے لیے آئے مظاہرین سے خطاب بھی کیا۔ انڈپینڈنٹ اردو نے مظاہرین سے ان کا موقف بھی جانا کہ وہ احتجاج میں کس لیے آئے ہیں اور اس احتجاج کی ان کی نظر میں کتنی افادیت ہے۔

جمعے کو کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے کشمیر آور منانے کے دوران لوگوں کا جذبہ دیکھنے کے لیے ہم نے ڈی چوک کے علاوہ کہیں جانے کا ارادہ کیا۔ اور اس مقصد کے لیے گاڑی کشمیر ہائی وے پر ڈال دی۔

یعنی کشمیریوں کے لیے کشمیر آور اور اسلام آباد کی کشمیر ہائی وے۔

جی سکس سے گزرتے ہوئے سڑک کنارے سکول کے بچوں کا جھرمٹ نظر آیا۔ بچوں نے ہاتھو ں میں کشمیر سے متعلق نعروں سے مزین پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جبکہ آٹھ دس استانیاں پھدکتے بچوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔

ننھے فرشتوں کے چہروں پر سکول سے جلدی چھٹی ملنے کی خوشی واضح طور پر چھلک رہی تھی جس سے محظوظ ہوتے ہوئے ہم آگے بڑھ گئے۔

جی نائن کے ٹریفک سگنل پر پہنچے تو اگرچہ ابھی دوپہر کے بارہ بجنے میں دو تین منٹ باقی تھے لیکن سگنل کی بتیاں بجھ گئیں۔ اور تقریباً ایک درجن ٹریفک وارڈنز ہر طرف سے سڑک کو بند کرنے کی کوشش میں مصروف ہو گئے۔

چیف وارڈن نے اپنے جوانوں کو حکم دیا: ایمبولینس کے علاوہ کسی گاڑی کو نہیں چھوڑنا۔

روکنے کے باوجود چند ایک موٹر سائیکل سوار چوک عبور کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ایک آدھ گاڑی والے نے بھی دوڑ لگائی۔ شاید انہیں معلوم نہیں تھا کہ اگلے سگنل پر تو رکنا ہی پڑے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بہرحال دوپہر کے بارہ بجنے تک کشمیر ہائی وے کے اس مقام پر گاڑیاں رک گئیں۔ اور ان گاڑیوں کے جھرمٹوں سے آگے اور پیچھے سڑکیں سنسان ہو گئیں۔

اور گاڑیوں کو روکے رکھنے کا سلسلہ آدھے گھنٹے یعنی ساڑھے بارہ بجے تک جاری رہا۔

 جمعرات کی شدید گرمی کے برعکس اسلام آباد میں جمعے کو موسم کافی بہتر رہا۔ اور دوپہر سے کچھ پہلے تو آسمان پر گھنے بادل بھی چھا گئے۔

نہیں معلوم کہ شدید گرمی کی صورت میں لوگوں کا کیا ردعمل ہونا تھا۔ بہرحال سہانے موسم نے کم از کم اسلام آباد میں کشمیر آور کو خوش گوار بنا دیا۔

اپنی بیٹی کے ساتھ ٹیکسی میں بیٹھی ایک خاتون بولیں: ’اگر کل جیسی گرمی ہوتی تو ہمارے لیے یوں اتنی دیر رکنا مشکل ہو جاتا۔‘

گاڑیوں کے جھرمٹ کے درمیان کئی لوگ ٹولیوں میں کھڑے نظر آئے۔ اور گروپوں میں سے اکثر کی گفتگو کشمیر کے گرد گھوم رہی تھی۔

’ہم تو کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کے لیے کھڑے ہیں، ‘کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی نے انڈپینڈنٹ اردو کے پوچھنے پر کہا۔

اس سوال کہ سگنل کھلا ہونے اور ٹریفک وارڈنز کی غیر موجودگی میں آپ رکتیں کے جواب میں انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا: ’میں ضرور رکتی۔‘

چوک میں تو گاڑیاں رکی ہوئی تھیں لیکن ایچ نائن کی طرف سے آنے والی ایک کچی سڑک پر موٹر سائیکل اور کاریں آ رہی تھیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے ایک فرہاد نامی موٹر سائیکل سوار کو روک کر نہ رکنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے الٹا سوال داغ دیا:’ کیا اس سے کشمیر آزاد ہو جائے گا؟‘

میلوڈی مارکیٹ میں ایک ٹریول ایجنسی کے مالک کچھ دوستوں کے ساتھ گاڑی میں موجود تھے۔ دریافت کرنے پر بولے:’پاکستان اور بھارت دونوں جنگ نہیں کر سکتے۔ تو یہی طریقے رہ جاتے ہیں آواز اٹھانے کے۔‘

چوک کے بند ہوتے ہی ایچ نائن کی جانب سے ایک بڑا جلوس نمودار ہوا۔ شرکا کشمیر کے حق اور بھارتی حکومت کے خلاف نعرہ بازی کر رہے تھے۔

انہوں نے کشمیری پرچم اور نعرے لکھے بینرز بھی اٹھا رکھے تھے۔

معلوم کرنے پر پتا چلا کہ وہ جی نائن میں واقع سرکاری دفاتر کے ملازمین ہیں اور انہیں کشمیر اور پرجوش انداز میں منانے کی ہدایات ملی ہیں۔

ابھی مرد حضرات کا یہ جلوس وہاں موجود تھا کہ جی نائن ہی کی جانب سے خواتین کی آوازیں سنائی دیں۔ غور کیا تو خواتین کو کشمیریوں کے حق میں نعرے لگاتے پایا۔

شاید خواتین سرکاری ملازمین نے مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کی بجائے اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنانے کا قصد کرتے ہوئے الگ جلوس نکالنے کا فیصلہ کیا۔

کچھ ہی دیر میں خواتین کا جلوس بھی چوک میں پہنچ گیا۔ جہاں شرکا نے مردوں کے ہمراہ خوب نعرہ بازی کی۔

خواتین و حضرات کی اس نعرہ بازی کے دوران ہی ایمبولنس کے سائرن کی آواز سنائی دی اور یہ دیکھ کر عجب حیرت ہوئی کہ رکی ہوئی گاڑیاں ایمبولینس کو راستہ دے رہی تھیں۔ ٹریفک وارڈنز نے بھی ایمبولینس کو آگے بڑھنے کا اشارہ کیا اور  وہ جی نائن کی طرف مڑ گئی۔

سڑک کے اس پار پیدل چلتی ایک معمر خاتون کو دیکھ کر ہم ان کی طرف بڑھے۔ قریب پہنچ کر گفتگو کا آغاز کیا تو معلوم ہوا کہ پختون ہیں۔ زبان پشتو سے ہماری شناسائی کام آئی اور ان سے پوچھا کہ آپ رکی کیوں نہیں ہیں۔

جھریوں سے بھرے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے قبائلی خاتون نے جواب دیا: ’میں اپنے حصے کا کھڑا ہونا وہاں پورا کر آئی ہوں۔ اب مجھے مزدوری کے لیے جانا ہے۔‘

ابھی ہم معمر پختون خاتون سے گفتگو کر ہی رہے تھے کہ ٹریفک سگنلز کھل گئے۔ اور وارڈنز نے گاڑیوں کو آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔ یعنی ساڑھے بارہ بج گئے تھے اور آدھے گھنٹے کا پہلا کشمیر آور پورا ہوا۔

ہماری گاڑی ٹریفک سگنل سے پیچھے کھڑی تھی۔ ہم پیدل ہی گاڑی تک پہنچے اور ابھی اندر بیٹھے ہی تھے کہ ڈرائیور نے سوال داغ دیا:’ سر کشمیر آزاد او گیا جے (سر کشمیر آزاد ہو گیا ہے کیا؟)‘

کشمیر آور کی سٹوری کے تانے بانے بننے میں مصروف ہونے کے باعث ہم نے اس کو جواب نہیں دیا تو وہ کھسیانی ہنسی کے ساتھ خود ہی بولا: ’شکر اے کشمیر آزاد او گیا وے۔ (شکر ہے کشمیر آزاد ہو گیا ہے۔)‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان